اے نبی ﷺ !) جب آپ لوگ اپنی عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے حساب سے طلاق دو اور عدت کا پورا لحاظ رکھو۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جو تمہارا ربّ ہے۔ انہیں مت نکال باہر کرو ان کے گھروں سے اور وہ خود بھی نہ نکلیں سوائے اس کے کہ وہ ارتکاب کریں کسی کھلی بےحیائی کا۔ اور یہ اللہ کی حدود ہیں۔ اور جو کوئی اللہ کی حدود سے تجاوز کرے گا تو اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا۔ تمہیں نہیں معلوم کہ شاید اس کے بعد اللہ کوئی نئی صورت پیدا کردے۔
پھر جب وہ اپنی (عدت کی) میعاد کو پہنچنے لگیں تو اب ان کو یا تو (اپنے نکاح میں) روک رکھو معروف طریقے سے یا جدا کردو معروف طریقے سے اور اپنے میں سے دو معتبر اشخاص کو گواہ بنا لو اور گواہی قائم کرو اللہ کے لیے۔ یہ ہے جس کی نصیحت کی جا رہی ہے ہراس شخص کو کہ جو ایمان رکھتا ہو اللہ پر اور یوم آخر پر۔ اور جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ پیدا کر دے گا۔
اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوگا۔ اور جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے تو اس کے لیے وہ کافی ہے۔ اللہ تو یقینا اپنا کام پورا کر کے ہی رہتا ہے۔ اللہ نے ہرچیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔
اور تمہارے ہاں کی خواتین میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں اگر تمہیں شک ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہوگی اور حاملہ خواتین کی عدت یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہوجائے۔ اور جو کوئی اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے وہ اس کے کاموں میں آسانی پیدا کردیتا ہے۔