6:54至6:55节的经注
وَاِذَا
جَآءَكَ
الَّذِیْنَ
یُؤْمِنُوْنَ
بِاٰیٰتِنَا
فَقُلْ
سَلٰمٌ
عَلَیْكُمْ
كَتَبَ
رَبُّكُمْ
عَلٰی
نَفْسِهِ
الرَّحْمَةَ ۙ
اَنَّهٗ
مَنْ
عَمِلَ
مِنْكُمْ
سُوْٓءًا
بِجَهَالَةٍ
ثُمَّ
تَابَ
مِنْ
بَعْدِهٖ
وَاَصْلَحَ
فَاَنَّهٗ
غَفُوْرٌ
رَّحِیْمٌ
۟
وَكَذٰلِكَ
نُفَصِّلُ
الْاٰیٰتِ
وَلِتَسْتَبِیْنَ
سَبِیْلُ
الْمُجْرِمِیْنَ
۟۠
3

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک قسم کے لوگ وہ تھے جو آپ کی صداقت پر معجزے طلب کرتے رہے۔ دوسرے لوگ وہ تھے جو قرآن كي آيات کو سن کر آپ کے مومن بن گئے۔ یہی امتحان ہر زمانہ میں انسان کے ساتھ جاری ہے۔ موجودہ دنیا میں خدا خود سامنے نہیں آتا، وہ داعی کی زبان سے اپنے دلائل کا اعلان کراتا ہے، وہ اپنی صداقت کو لفظوں کے روپ میں ڈھال کر انسان کے سامنے لاتا ہے۔ اب جس کی فطرت زندہ ہے وہ انھیں دلائل میں خدا کا جلوہ دیکھ لیتاہے اور اس کا اقرار کرکے اس کے آگے جھک جاتاہے۔ اس کے برعکس، جنھوںنے اپنی فطرت پر مصنوعی پردے ڈال رکھے ہیں، وہ ’’الفاظ‘‘ کے روپ میں خدا کو پانے میں ناکام رہتے ہیں۔ وہ خدا کو اس کی استدلالي صورت میں دیکھ نہیں پاتے اس لیے چاہتے ہیں کہ خدا اپنی مشاہداتی صورت میں ان کے سامنے آئے۔ مگر موجودہ امتحان کی دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ یہاں وہی شخص خدا کو پائے گا جو خدا کو حالتِ غیب میں پالے، جو شخص خدا کو حالتِ شہود میں دیکھنے پر اصرار کرے، اس کا انجام خدا کی اس دنیا میں محرومی کے سوا اور کچھ نہیں۔

جو لوگ اپنی کجی کی وجہ سے حق سے دور رہتے ہیں وہ حق کو قبول کرنے والوں پر طرح طرح کے الزام لگاتے ہیں تاکہ ان کے مقابلہ میں اپنے کو بہتر ثابت کرسکیں۔ ان کو اپنے جرائم نظر نہیں آتے۔ البتہ حق پرستوں سے اگر کبھی کوئی غلطی ہوگئی تو اس کو خوب بڑھا کر بیان کرتے ہیں، تاکہ یہ ظاہر ہو کہ جو لوگ اس دعوت کے گرد جمع ہیں وہ قابل اعتبار لوگ نہیں ہیں۔ حالاں کہ اصل صورت حال اس کے برعکس ہے۔ جن لوگوں نے ناحق کو چھوڑ کر حق کو قبول کیا ہے انھوں نے اپنے اس عمل سے ایمان واصلاح کے راستہ پر چلنے کا ثبوت دیا ہے۔ اس طرح وہ خدا کے قانون کے مطابق اس کے مستحق ہوگئے کہ انھیں اصلاح حال کی توفیق ملے اور وہ خدا کی رحمتوں میں اپنا حصہ پائیں۔ اس کے برعکس جو لوگ حق سے دور پڑے ہوئے ہیں وہ اپنے عمل سے ثابت کررہے ہیں کہ وہ ایمان واصلاح کا طریقہ اختیار کرنے سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتے۔ ایسے لوگ خدا کی توفیق سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی ڈھٹائی کبھی ختم نہیں ہوتی اور ڈھٹائی ہی خدا کی اس دنیا میں کسی کاسب سے بڑا جرم ہے۔

خدا ’’نشانیوں‘‘ کی زبان میں بولتا ہے۔ نشانیاں اس شخص کے لیے کار آمد ہوتی ہیں جو ان کو پڑھنا چاہے۔ اسی طرح ہدایت اسی کو ملے گی جو اس کا طالب ہو ۔ جو شخص ہدایت کی طلب نہ رکھتا ہو اس کے لیے خدا کی اس دنیا میں بھٹکنے کے سوا کوئی دوسرا انجام نہیں۔