6:51至6:53节的经注
وَاَنْذِرْ
بِهِ
الَّذِیْنَ
یَخَافُوْنَ
اَنْ
یُّحْشَرُوْۤا
اِلٰی
رَبِّهِمْ
لَیْسَ
لَهُمْ
مِّنْ
دُوْنِهٖ
وَلِیٌّ
وَّلَا
شَفِیْعٌ
لَّعَلَّهُمْ
یَتَّقُوْنَ
۟
وَلَا
تَطْرُدِ
الَّذِیْنَ
یَدْعُوْنَ
رَبَّهُمْ
بِالْغَدٰوةِ
وَالْعَشِیِّ
یُرِیْدُوْنَ
وَجْهَهٗ ؕ
مَا
عَلَیْكَ
مِنْ
حِسَابِهِمْ
مِّنْ
شَیْءٍ
وَّمَا
مِنْ
حِسَابِكَ
عَلَیْهِمْ
مِّنْ
شَیْءٍ
فَتَطْرُدَهُمْ
فَتَكُوْنَ
مِنَ
الظّٰلِمِیْنَ
۟
وَكَذٰلِكَ
فَتَنَّا
بَعْضَهُمْ
بِبَعْضٍ
لِّیَقُوْلُوْۤا
اَهٰۤؤُلَآءِ
مَنَّ
اللّٰهُ
عَلَیْهِمْ
مِّنْ
بَیْنِنَا ؕ
اَلَیْسَ
اللّٰهُ
بِاَعْلَمَ
بِالشّٰكِرِیْنَ
۟
3

نصیحت ہمیشہ ان لوگوں کے لیے کار گر ہوتی ہے جو اندیشہ کی نفسیات میں جیتے ہوں۔ جس کو کسی چیز کا کھٹکا لگا ہوا ہو اسی کو خطرے سے آگاہ کیا جاسکتاہے۔ اس کے برعکس، جو لوگ بے خوفی کی نفسیات میں جی رہے ہوں وہ کبھی نصیحت کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے، اس لیے وہ نصیحت کو قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔

بے خوفی کی نفسیات پیدا ہونے کا سبب عام طورپر دو چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک، دنیا پرستی، دوسري اکابر پرستی۔ جو لوگ دنیا کی چیزوں میں گم ہوں یادنیا کی کوئی کامیابی پاکر اس پر مطمئن ہوگئے ہوں، حتی کہ انھیں یہ بھی یاد نہ رہتا ہو کہ ایک روز ان کو مرکر خالق ومالک کے سامنے حاضر ہونا ہے، ایسے لوگ آخرت کو کوئی قابل لحاظ چیزنہیں سمجھتے۔ اس لیے آخرت کی یاد دہانی ان کے ذہن میںاپنی جگہ حاصل نہیں کرتی۔ ان کامزاج ایسی باتوں کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کردیتا ہے۔

دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو آخرت کے معاملہ کو سفارش کا معاملہ سمجھ لیتے ہیں۔ وہ فرض کرلیتے ہیںکہ جن بڑوں کے ساتھ انھوںنے اپنے کو وابستہ کر رکھا ہے وہ آخرت میں ان کے مدد گار اور سفارشی بن جائیں گے اور کسی بھی ناموافق صورتِ حال میں ان کی طرف سے کافی ثابت ہوں گے۔ ایسے لوگ اس بھروسہ پر جی رہے ہوتے ہیں کہ انھوںنے مقدس ہستیوں کا دامن تھام رکھا ہے، وہ خدا کے محبوب ومقبول گروہ کے ساتھ شامل ہیں اس لیے اب ان کا کوئی معاملہ بگڑنے والا نہیں ہے۔ یہ نفسیات ان کو آخرت کے بارے میں نڈر بنادیتی ہے، وہ کسی ایسی بات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کہ لیے تیار نہیں ہوتے جو آخرت میں ان کی حیثیت کو مشتبہ کرنے والی هو۔

جو لوگ مصلحتوں کی رعایت کرکے دولت ومقبولیت حاصل کیے ہوئے ہوں وہ کبھی حق کی بے آمیز دعوت کا ساتھ نہیں دیتے۔ کیوں کہ حق کا ساتھ دينا ان کے لیے یہ معنی رکھتا ہے کہ اپنی مصلحتوں کے بنے بنائے ڈھانچہ کو توڑ دیا جائے۔ پھر جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ حق کے گرد معمولی حیثیت کے لوگ جمع ہیں تو یہ صورت حال ان كے لیے اور زیادہ فتنہ بن جاتی ہے۔ ان کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا ساتھ دے کر وہ اپنی حیثیت کو گرالیں گے۔ وہ حق کو حق کی کسوٹی پر نہ دیکھ کر اپنی کسوٹی پر دیکھتے ہیں اور جب حق ان کی اپنی کسوٹی پرپورا نہیں اترتا تو وہ اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔