40:38至40:44节的经注
وَقَالَ
الَّذِیْۤ
اٰمَنَ
یٰقَوْمِ
اتَّبِعُوْنِ
اَهْدِكُمْ
سَبِیْلَ
الرَّشَادِ
۟ۚ
یٰقَوْمِ
اِنَّمَا
هٰذِهِ
الْحَیٰوةُ
الدُّنْیَا
مَتَاعٌ ؗ
وَّاِنَّ
الْاٰخِرَةَ
هِیَ
دَارُ
الْقَرَارِ
۟
مَنْ
عَمِلَ
سَیِّئَةً
فَلَا
یُجْزٰۤی
اِلَّا
مِثْلَهَا ۚ
وَمَنْ
عَمِلَ
صَالِحًا
مِّنْ
ذَكَرٍ
اَوْ
اُ
وَهُوَ
مُؤْمِنٌ
فَاُولٰٓىِٕكَ
یَدْخُلُوْنَ
الْجَنَّةَ
یُرْزَقُوْنَ
فِیْهَا
بِغَیْرِ
حِسَابٍ
۟
وَیٰقَوْمِ
مَا
لِیْۤ
اَدْعُوْكُمْ
اِلَی
النَّجٰوةِ
وَتَدْعُوْنَنِیْۤ
اِلَی
النَّارِ
۟ؕ
تَدْعُوْنَنِیْ
لِاَكْفُرَ
بِاللّٰهِ
وَاُشْرِكَ
بِهٖ
مَا
لَیْسَ
لِیْ
بِهٖ
عِلْمٌ ؗ
وَّاَنَا
اَدْعُوْكُمْ
اِلَی
الْعَزِیْزِ
الْغَفَّارِ
۟
لَا
جَرَمَ
اَنَّمَا
تَدْعُوْنَنِیْۤ
اِلَیْهِ
لَیْسَ
لَهٗ
دَعْوَةٌ
فِی
الدُّنْیَا
وَلَا
فِی
الْاٰخِرَةِ
وَاَنَّ
مَرَدَّنَاۤ
اِلَی
اللّٰهِ
وَاَنَّ
الْمُسْرِفِیْنَ
هُمْ
اَصْحٰبُ
النَّارِ
۟
فَسَتَذْكُرُوْنَ
مَاۤ
اَقُوْلُ
لَكُمْ ؕ
وَاُفَوِّضُ
اَمْرِیْۤ
اِلَی
اللّٰهِ ؕ
اِنَّ
اللّٰهَ
بَصِیْرٌ
بِالْعِبَادِ
۟
3

آیت نمبر 38 تا 44

یہ وہ حقائق ہیں جن کے بارے میں اس سورت کے آغاز میں دوٹوک الفاظ میں بتادیا گیا تھا۔ یہاں رجل مومن اپنی تقریر میں فرعون کے سامنے ان کو دہرتا ہے۔ یہ فرعون کے سامنے کہتا ہے۔

یٰقوم اتبعون اھدکم سبیل الرشاد (40: 38) ” اے قوم ، میری بات مانو ، میں تمہیں صحیح راستہ بتاتا ہوں “۔ اس سے چند لمحہ پہلے فرعون نے یہ کہا تھا :

وما اھدیکم الا سبیل الرشاد (40: 29) ” اور میں تو تمہیں سیدھے راستے کے سوا کوئی راستہ نہیں بتاتا “۔ رجل مومن کی طرف سے گویا فرعون کو اس بادشاہت اور جباری وقہاری کے باوجود صریح چیلنج ہے۔ یہ چیلنج اس وقت دیا جارہا ہے جبکہ اس کے پاس اس کے امراہامان اور قارون بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں فرعون کے وزیر تھے جیسا کہ روایات میں آتا ہے۔ رجل مومن ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی حقیقت یوں کھولتا ہے۔

انما ھٰذہ الحیوۃ الدنیا متاع (40: 39) ” یہ دنیا کی زندگی تو چند روزہ ہے “۔ ایک ایسا سازوسامان ہے جو زائل ہونے والا ہے اس کے لیے ثبات و دوام نہیں ہے۔

وان الاخرۃ ھی دار القرار (40: 39) ” اور دار آخرت ہی ہمشہ قیام کی جگہ ہے “۔ آخرت اصل ہے اور اسے زیادہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔ پھر وہ یہ بات دوٹوک الفاظ میں کہتا ہے کہ

من عمل۔۔۔ حساب (40: 40) ” جو برائی کریگا اس کو اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنی اس نے برائی کی ہوگی اور جو نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، بشرطیکہ ہو وہ مومن ، ایسے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے ، جہاں ان کو بےحساب رزق دیا جائگا “۔

اللہ کے فضل وکرم کا تقاضا ہوا کہ نیکیوں کو بڑھایا جائے اور بغیر حساب معاوضہ ہو اور برائیوں کو نہ بڑھایا جائے ۔ یہ اللہ کی مہربانی ہے اپنے بندوں کی کمزوریوں کا اللہ نے خیال رکھا ہے اور خیر اور بھلائی کے کاموں کو پرکشش بنانے کے لیے اللہ نے ان کے اجر کو زیادہ رکھاتا کہ لوگ اس راہ پر ثابت قدمی سے کا مزن ہوں۔ اللہ نے نیکی کو سیئات اور برائیوں کا کفارہ بنادیا اور جب وہ اس نرم حساب و کتاب کے بعد جنت میں پہنچیں گے تو وہاں بغیر حساب و کتاب ان کو دیا جائے گا۔ یہ رجل مومن اپنی تقریر میں ان پت تنقید بھی کرتا ہے وہ تو ان کو راہ نجات کی طرف بلاتا ہے۔ جنتوں کی طرف بلاتا ہے ، اور وہ اسے آگ کی طرف بلا رہے ہیں۔ وہ سرزنش کے انداز میں کہتا ہے :

ویٰقوم۔۔۔۔ الی النار (40: 41) ” اے قوم ، آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ میں تم کو نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آگ کی طرف دعوت دیتے ہو “۔ انہوں نے تو بظاہر اس کو آگ کی طرف نہیں بلایاشرک کی طرف بلایا۔ ظاہر ہے کہ شرک کی طرف بلانے اور آگ کی طرف بلانے میں کیا فرق ہے۔ یہ ایک ہی بات ہے اور اگلی آیت میں بات صاف کردیتا ہے۔

تدعوننی لاکفر۔۔۔۔ الغفار (40: 42) ” تم مجھے اس بات کی طرف دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ سے کفر کروں اور اس کے ساتھ ان ہستیوں کو شریک ٹھہراؤں جنہیں میں نہیں جانتا حالانکہ میں تمہیں زبردست مغفرت کرنے والے خدا کی طرف بلاتا ہوں “۔ اور ان دونوں دعوتوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ میری دعوت تو بہت واضح اور صاف ہے۔ عزیز و غفار کی طرف سے یہ دعوت ۔ ایک ایسے اللہ وحدہ کی طرف دعوت ہے جس کی وحدانیت پر اس کائنات کے تمام آثارشاہد ہیں اور اس کی قدرت اور حکمت پر اس کائنات کی ہر چیز شاہد عادل ہے۔ وہ ان کو اس کی طرف بلاتا ہے جو مغفرت کرنے والا ہے تاکہ بخش دے۔ جو بہت بڑا بخشنے والا ہے۔ اور یہ لوگ اس رجل مومن کس طرف بلاتے ہیں ؟ کفر کرنے کے لیے ، شرک کرنے کے لیے ، جس کا اسے کوئی علم نہیں ہے۔ محض دعویٰ ہے ، اوہام ہیں اور افسانے ہیں جن پر ان کا عقیدہ ہے۔ وہ ان کو دوٹوک الفاظ میں کہتا ہے کہ جن ہستیوں کو تم نے خدا کا شریک بنارکھا ہے۔ ان کی تو نہ دنیا میں کوئی پوزیشن ہے اور نہ آخرت میں کوئی پوزیشن ہے۔ آخر کار تمام انسانوں کو تو صرف اللہ کے ہاں لوٹنا ہے۔ اور یہ تم لوگ جو اسراف کرتے ہو اور حدود کو یاد کرتے ہو تمہارے لیے تو جہنم کے سوا کچھ نہیں ہے۔

لاجرم۔۔۔۔۔ اصحٰب النار (40: 43) ” حق یہ ہے اور اس کے خلاف نہیں ہوسکتا کہ جن کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو ، ان کے لیے نہ دنیا میں کوئی دعوت ہے ، نہ آخرت میں اور ہم سب کو پلٹنا اللہ ہی کی طرف ہے اور حد سے گزرنے والے آگ میں جانے والے ہیں “۔ عقائد کے حوالے سے یہ بنیادی باتیں دوٹوک انداز میں بیان کردینے کے بعد کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ یہ سب باتیں اس رجل مومن نے فرعون ، اس کے درباریوں اور وزراء کے سامنے کردیں ، بغیر کسی جھجک اور شف شف کے۔ پہلے تو وہ اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا لیکن تقریر کے آخر میں اسنے اس کا اظہار کردیا۔ اب صرف یہ بات رہتی ہے کہ حق تبلیغ ادا کرنے کے بعد وہ تمام امور کو اللہ پر چھوڑدے۔ اسنے بات کہہ دی ، اس کا ضمیر مطمئن ہوگیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ اے کاش ! عنقریب تم میری باتوں کو یاد کروگے لیکن اس وقت اس نصیحت کا تمہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ حقیقت میں معاملات کی باگ ڈور اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

فستذکرون۔۔۔۔ بالعباد (40: 44) ” آج جو کچھ میں کہہ رہا ہوں عنقریب وہ وقت آئے گا جب تم اسے یاد کروگے اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ وہ اپنے بندوں کا نگہنان ہے “۔ اب اس پر یہ تقریر اور مکاملہ ختم ہوتا ہے۔ رجل مومن نے کلمہ حق اس کائنات کے ضمیر میں ریکارڈکرادیا اور قرآن نے اسے لازوال دوام بخشا۔

یہاں سیاق کلام حضرت موسیٰ اور فرعون کی طویل کشمکش کی بعض کڑیوں کو مجمل کردیتا ہے۔ اب یہاں بنی اسرائیل کے فرار اور نجات اور فرعون کی غرقابی کی طرف اشارہ کردیا جاتا ہے اور اس کے بعد اس پر تبصرے کیے جاتے ہیں۔ برزخی زندگی میں اس کا حال یہ ہوگا۔