12:77至12:78节的经注
قَالُوْۤا
اِنْ
یَّسْرِقْ
فَقَدْ
سَرَقَ
اَخٌ
لَّهٗ
مِنْ
قَبْلُ ۚ
فَاَسَرَّهَا
یُوْسُفُ
فِیْ
نَفْسِهٖ
وَلَمْ
یُبْدِهَا
لَهُمْ ۚ
قَالَ
اَنْتُمْ
شَرٌّ
مَّكَانًا ۚ
وَاللّٰهُ
اَعْلَمُ
بِمَا
تَصِفُوْنَ
۟
قَالُوْا
یٰۤاَیُّهَا
الْعَزِیْزُ
اِنَّ
لَهٗۤ
اَبًا
شَیْخًا
كَبِیْرًا
فَخُذْ
اَحَدَنَا
مَكَانَهٗ ۚ
اِنَّا
نَرٰىكَ
مِنَ
الْمُحْسِنِیْنَ
۟
3

اس مختصر سبق آموز تبصرے کے بعد اب ہم برادران یوسف (علیہ السلام) کی طرف لوٹتے ہیں۔ حالات ایسے ہیں کہ اس مشکل مرحلے سے دو چار ہو کر یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کے خلاف ان کے دل میں چھپی ہوئی عداوت اور بغض و حسد اب اہل پڑا ہے۔ چناچہ وہ اپنے آپ کو اس جرم سے بری قرار دے کر ، اس کا ذمہ دار حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی دوسری بیوی کی اولاد کو ٹھہراتے ہیں۔

قالوا ان یسرق فقد سرق اخ لہ من قبل (12 : 77) ان بھائیوں نے کہا “ یہ چوری کرے تو کچھ تعجب کی بات بھی نہیں ، اس سے پہلے اس کا بھائی (یوسف (علیہ السلام) بھی چوری کرچکا ہے ”۔ ہمارے تفاسیر کے ذخیرے میں اس الزام پر طویل تبصرے ، حکایات اور روایات بیان کی گئی ہیں ، جو سب کی سب اسرائلیات پر مشتمل ہیں۔ یہ کہ اس کی طرف سے سرقہ قابل تعجب نہیں ہے۔ اس سے قبل اس کے بھائی (یوسف (علیہ السلام) اس جرم کا ارتکاب کرچکے ہیں۔ گویا انہوں نے تو یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں باپ کے سامنے جھوٹ نہیں کہا تھا۔ کیا وہ اب عزیز مصر کے سامنے جھوٹ نہیں بول رہے کہ اپنے آپ کو اس شرمندگی سے نکالیں اور اس طرح وہ اپنے آپ کو یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائی سے قدرے علیحدہ کردیں۔ اس طرح یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کے حق میں اپنے قدیمی بغض اور حسد کو ظاہر کردیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) پر یہ بالکل ناحق اور جھوٹا الزام لگایا۔

فاسرھا یوسف فی نفسہ ولم یبدھالھم (12 : 77) “ یوسف (علیہ السلام) ان کی یہ بات سن کر پی گیا اور یہ بات ان پر نہ کھولی ”۔ یوسف (علیہ السلام) نے ان کو اس الزام کے جواب میں ، اپنی حقیقت ان پر نہ کھولی ، بات کو پی گئے اور اپنے تاثرات کا اظہار نہ کیا۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ وہ اور ان کے بھائی دونوں بری الذمہ ہیں۔ البتہ انہوں نے صرف اتنا کہا :

قال انتم شرمکانا (12 : 77) “ تم بہت ہی برے لوگ ہو ”۔ یعنی تم یہ جھوٹا الزام لگا رہے ہو اور جس پر تم الزام لگا رہے ہو ، اس کے مقابلے میں تم تو بہت ہی برے ہو ”۔

قال انتم شر مکاناً (12 : 77) “ یوسف (علیہ السلام) نے کہا ، تم بہت ہی برے ہو ”۔ یعنی تم جس پر الزام سرقہ لگا رہے ہو اس کے مقابلے میں اللہ کے نزدیک تم خود بہت ہی برے ہو ، اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جو کچھ کہا۔ یہ محض گالی نہ تھی بلکہ حقیقت تھی۔

واللہ اعلم بما تصفون (12 : 77) “ جو الزام تم لگا رہے ہو ، اس کی حقیقت خدا خوب جانتا ہے ”۔ اور اس واقعہ کی حقیقت بھی اور تمہارے الزام کی حقیقت بھی۔ یوں اللہ پر چھوڑ کر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بات کو یہاں ہی ختم کردیا کیونکہ یہاں مطلب و موضوع کے ساتھ اس واقعہ کا تعلق نہیں ہے۔

اب یہ لوگ اس پریشان کن صورت حال پر غور کرنے لگے جس میں وہ گرفتار ہوگئے تھے۔ سوچنے لگے کہ والد نے تو پہلے ہی یہ کہا تھا کہ :

لتاتننی بہ الا این یحاط بکم (12 : 66) “ تم ضرور اسے لے کر آؤ گے الا یہ کہ تم سب گھر جاؤ ”۔ اب وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) سے رحم کی اپیل کرنے لگے۔ اس نوجوان بھائی کے بہت ہی بوڑھے باپ کا واسطہ دینے لگے ، یہ پیش کرنے لگے کہ اس کی جگہ ہم میں سے کسی ایک کو گرفتار کرلے ۔ یہ ان کو یاد دلا رہے ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) تم بہت محسن ، نیک نفس انسان ہو اور اس کے باپ ہی کی خاطر اسے رہا کردو۔

قالوا یایھا العزیز ۔۔۔۔۔ المحسنین (12 : 78) “ انہوں نے کہا “ اے سردار ذی اقتدار (عزیر) اس کا باپ بہت بوڑھا آدمی ہے ، اس کی جگہ آپ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجئے ، ہم آپ کو بڑا ہی نیک نفس انسان پاتے ہیں ”۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) تو انہیں مزید سبق پڑھانا چاہتے تھے۔ وہ ان کو اس اچانک خوشی کے لئے تیار کررہے تھے ، جو ان کے لیے ، ان کے والد کے لئے اور سب رشتہ داروں کے لئے آرہی تھی تا کہ وہ بےحد خوش ہوں اور ان پر اس کا گہرا اثر ہو۔