6:39 6:37 ایک تفسیر پڑھ رہے ہیں
وَقَالُوْا
لَوْلَا
نُزِّلَ
عَلَیْهِ
اٰیَةٌ
مِّنْ
رَّبِّهٖ ؕ
قُلْ
اِنَّ
اللّٰهَ
قَادِرٌ
عَلٰۤی
اَنْ
یُّنَزِّلَ
اٰیَةً
وَّلٰكِنَّ
اَكْثَرَهُمْ
لَا
یَعْلَمُوْنَ
۟
وَمَا
مِنْ
دَآبَّةٍ
فِی
الْاَرْضِ
وَلَا
طٰٓىِٕرٍ
یَّطِیْرُ
بِجَنَاحَیْهِ
اِلَّاۤ
اُمَمٌ
اَمْثَالُكُمْ ؕ
مَا
فَرَّطْنَا
فِی
الْكِتٰبِ
مِنْ
شَیْءٍ
ثُمَّ
اِلٰی
رَبِّهِمْ
یُحْشَرُوْنَ
۟
وَالَّذِیْنَ
كَذَّبُوْا
بِاٰیٰتِنَا
صُمٌّ
وَّبُكْمٌ
فِی
الظُّلُمٰتِ ؕ
مَنْ
یَّشَاِ
اللّٰهُ
یُضْلِلْهُ ؕ
وَمَنْ
یَّشَاْ
یَجْعَلْهُ
عَلٰی
صِرَاطٍ
مُّسْتَقِیْمٍ
۟
3

ان آیات کے اختصار کو کھول دیا جائے تو پورا مضمون اس طرح ہوگا — وہ کہتے ہیں کہ پیغمبر کے ساتھ غیرمعمولی نشانی کیوں نہیں، جو اس کے پیغام کے برحق ہونے کا ثبوت ہو۔ تو اللہ ہر قسم کی نشانی اتارنے پر قادر ہے۔ مگر اصل سوال نشانی کا نہیں بلکہ لوگوں کی بے علمی کا ہے۔ نشانیاں تو بے شمار تعداد میں ہر طرف بکھری ہوئی ہیں جب لوگ اِن موجود نشانیوں سے سبق نہیں لے رہے ہیں تو کوئی نئی نشانی اتارنے سے وہ کیا فائدہ اٹھا سکیں گے۔ طرح طرح کے چلنے والے جانور اور مختلف قسم کے اڑنے والی چڑیاں جو زمین میں اور فضا میں موجودہیں وہ تمھارے لیے نشانیاں ہی تو ہیں۔ ان تمام زندہ مخلوقات سے بھی اللہ کو وہی کچھ مطلوب ہے جو تم سے مطلوب ہے۔ اور ہر ایک سے جو کچھ مطلوب ہے وہ خدا نے اس کے لیے لکھ دیا ہے، انسان کو شرعی طورپر اور دوسری مخلوقات کو جبلّی طور پر۔ چڑیوں اور جانوروں جیسی مخلوقات خدا کے لکھے پر پورا پورا عمل کررہی ہے۔ مگر انسان خدا کے لکھے کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔اس لیے یہ معاملہ نشانی کا نہیں بلکہ اندھے پن کا ہے، بقیہ تمام مخلوقات جو دین اختیار کیے ہوئے ہیں، انسان کے لیے اس کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنے کا جواز کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن کو عمل کرنا ہے وہ نشانی کا مطالبہ کیے بغیر عمل کررہے ہیں اور جن کو عمل کرنا نہیں ہے وہ نشانیوں کے ہجوم میں رہ کر نشانیاں مانگ رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کا انجام یہی ہے کہ قیامت میں سب کو جمع کرکے دکھا دیا جائے کہ ہر قسم کے حیوانات کس طرح حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرکے خدا کے راستہ پر چل رہے تھے۔ یہ صرف انسان تھاجو اس سے انحراف کرتا رہا۔

جانوروں کی دنیا مکمل طورپر مطابق فطرت دنیا ہے۔ ان کے یہاں رزق کی تلاش ہے مگر لوٹ اور ظلم نہیں ہے۔ ان کے یہاں ضرورت ہے مگر حرص اور خود غرضی نہیں۔ ان کے یہاں باہمی تعلقات ہیں مگر ایک دوسرے کی کاٹ نہیں۔ ان کے یہاں اونچ نیچ ہے مگر حسد اور غرور نہیں۔ ان کے یہاں ایک کو دوسرے سے تکلیف پہنچتی ہے مگر بغض وعداوت نہیں۔ ان کے یہاں کام ہو رہے هيں مگر انھیں کریڈٹ لینے کا شوق نہیں۔ مگر انسان سرکشی کرتا ہے۔ وہ خدائی نقشہ کا پابند بننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ انسان سے جس چیز کا مطالبہ ہے وہ ٹھیک وہی ہے جس پر دوسرے حیوانات قائم ہیں۔ پھر اس کے ليے معجزہ مانگنے کی کیا ضرورت ۔ حیوانات کی صورت میں چلتی پھرتی نشانیاں کیا آدمی کے سبق کے ليے کافی نہیں ہیں جو خدائی طریق عمل کا زندہ نمونہ پیش کررہی ہیں اور اس طرح پیغمبر کی تعلیمات کے بر حق ہونے کی عملی تصدیق کرتی ہیں۔