40:25 40:23 ایک تفسیر پڑھ رہے ہیں
وَلَقَدْ
اَرْسَلْنَا
مُوْسٰی
بِاٰیٰتِنَا
وَسُلْطٰنٍ
مُّبِیْنٍ
۟ۙ
اِلٰی
فِرْعَوْنَ
وَهَامٰنَ
وَقَارُوْنَ
فَقَالُوْا
سٰحِرٌ
كَذَّابٌ
۟
فَلَمَّا
جَآءَهُمْ
بِالْحَقِّ
مِنْ
عِنْدِنَا
قَالُوا
اقْتُلُوْۤا
اَبْنَآءَ
الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا
مَعَهٗ
وَاسْتَحْیُوْا
نِسَآءَهُمْ ؕ
وَمَا
كَیْدُ
الْكٰفِرِیْنَ
اِلَّا
فِیْ
ضَلٰلٍ
۟
3

پیغمبروں کو عام دلائل کے ساتھ مزید ایسی معجزاتی تائید حاصل رہتی ہے جو ان کے فرستادۂ خدا ہونے کا انتہائی واضح ثبوت ہوتی ہے۔ مگر حق کو ماننا ہمیشہ اپنی نفی کی قیمت پر ہوتا ہے جو بلاشبہ کسی انسان کےلیے مشکل ترین قربانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتہائی کھلے کھلے دلائل کے باوجود فرعون اور اس کے درباریوں نے حضرت موسیٰ کی نبوت کا اقرار نہیںکیا۔

اس کے بجائے انھوں نے ایک طرف عوام کو یہ تاثر دینا شروع کیا کہ موسیٰ کا دعویٰ بے حقیقت ہے اور ان کے معجزے محض جادو کا کرشمہ ہیں۔دوسری طرف انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بنی اسرائیل کی تعداد کو گھٹانے کےلیے اپنی سابقہ پالیسی کو مزید شدت کے ساتھ جاری کردیا جائے۔ تاکہ موسیٰ اپنی قوم (بنی اسرائیل) کے اندر اپنے ليے مضبوط بنیاد نہ پاسکیں۔ مگر انھیں معلوم نہ تھا کہ وہ اپنی یہ تدبیر موسیٰ کے مقابلہ میں نہیں بلکہ خدا کے مقابلہ میں کررہے ہیں اور خدا کے مقابلہ میں کسی کي کوئی تدبیر کبھی کار گر نہیں ہوتی۔