28:73 28:71 ایک تفسیر پڑھ رہے ہیں
قُلْ
اَرَءَیْتُمْ
اِنْ
جَعَلَ
اللّٰهُ
عَلَیْكُمُ
الَّیْلَ
سَرْمَدًا
اِلٰی
یَوْمِ
الْقِیٰمَةِ
مَنْ
اِلٰهٌ
غَیْرُ
اللّٰهِ
یَاْتِیْكُمْ
بِضِیَآءٍ ؕ
اَفَلَا
تَسْمَعُوْنَ
۟
قُلْ
اَرَءَیْتُمْ
اِنْ
جَعَلَ
اللّٰهُ
عَلَیْكُمُ
النَّهَارَ
سَرْمَدًا
اِلٰی
یَوْمِ
الْقِیٰمَةِ
مَنْ
اِلٰهٌ
غَیْرُ
اللّٰهِ
یَاْتِیْكُمْ
بِلَیْلٍ
تَسْكُنُوْنَ
فِیْهِ ؕ
اَفَلَا
تُبْصِرُوْنَ
۟
وَمِنْ
رَّحْمَتِهٖ
جَعَلَ
لَكُمُ
الَّیْلَ
وَالنَّهَارَ
لِتَسْكُنُوْا
فِیْهِ
وَلِتَبْتَغُوْا
مِنْ
فَضْلِهٖ
وَلَعَلَّكُمْ
تَشْكُرُوْنَ
۟
3

قل ارءیتم ان جعل اللہ ۔۔۔۔۔۔۔ ولعلکم تشکرون (71 – 74)

وگوں کی حالت یہ ہے کہ انہوں نے رات اور دن کی گردش دیکھ دیکھ کر ان سے اس قدر مانوس ہوگئے ہیں کہ اس گردش

کے اندر ان کو کوئی بات نئی نہیں لگتی۔ وہ سورج کے طلوع اور غروب سے بہت زیادہ متاثر نہیں ہوتے۔ اسی طرح دن کا نمودار ہونا اور رات کا چھا جانا بھی ان کو کچھ زیادہ نہیں کرتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ گردش لیل و نہار کے اندر انسانوں کے لیے جو فائدے ہیں اور جو رحمتیں ہیں اور جس طرح یہ گردش ان کو تباہی و ہلاکت سے بچاتی ہے ، اکتانے اور تھکانے سے بچاتی ہے۔ یہ باتیں ان کے شعور میں مسحضر نہیں رہتیں۔

قرآن کریم ان کو غفلت کی نیند سے جگاتا ہے ان کو ذرا اس عادی رویہ اور عادی منظر سے دور لے جاتا ہے۔ ان کو متوجہ کرتا ہے کہ تمہارے اردگرد گردش لیل و نہار کی وجہ سے کس قدر عظیم واقعات رونما ہوتے ہیں تو تم توجہ نہیں کرتے ۔ ذرا اتنا سوچو کہ رات ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رک گئی یا دن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم ہوگیا۔ تو کس قدر خوفناک نتائج کا سامنا تمہیں کرنا ہوگا۔ انسانوں کو کسی چیز کی قدروقیمت کا پتہ تب چلتا ہے جب وہ نہیں ہوتی۔

قل ارءیتم ان جعل ۔۔۔۔۔ افلا تسمعون (28: 71) ” اے نبی ﷺ ، ان سے کہو کبھی تم لوگوں نے غور کیا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے رات طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو اس میں روشنی لا دے۔ کیا تم سنتے نہیں ہو ؟ “۔ جب سردیوں میں رات قدرے طویل ہوجاتی ہے تو لوگ سپیدہ صبح کے لیے بےتاب ہوجاتے ہیں اور جب سورج تھوڑی دیر کے لیے بادلوں میں چھپ جائے تو یہ آرزوئیں کرنے لگتے ہیں کہ سورج نکل آئے۔ اور اگر روشنی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلی جائے تو ان کی حالت کیا ہوجائے گی جب رات ہمیشہ کے لیے قیامت تک ان پر مسلط ہوجائے۔ یہ تو اس صورت میں ہے کہ یہ پھر زندہ بھی کسی صورت میں رہ سکیں۔ حالانکہ ایسی صورت میں تو خطرہ یہ ہوگا کہ دنیا سے زندگی کے آثار ہی مٹا دئیے جائیں اور کبھی بھی دن نمودار ہو یا زندگی برقرار ہو۔

قل ارءیتم ان جعل اللہ ۔۔۔۔۔ افلا تبصرون (28: 72) ” ان سے پوچھو ، کبھی تم نے سوچا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے دن طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہیں رات لا دے تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرسکو کیا تم کو سوجھتا نہیں “۔ لوگوں کی حالت یہ ہے کہ اگر دن ذرا طویل ہوجائے تو وہ سایوں کے تعاقب میں دوڑتے ہیں۔ اور گرمیوں میں دن طویل ہو تو رات کے مشتاق ہوتے ہیں اور رات کی تاریکی میں سکون وقرار تلاش کرتے ہیں۔ جبکہ زندگی رات کس سکون بھی چاہتی ہے جبکہ دوسرے دن ، دن کی سرگرمی دکھائی جاسکے۔ لیکن اگر دن قیامت تک کے لئے جاری کردیا گیا تو لوگوں کی حالت کیا ہوجائے گی۔ پہلے تو وہ ختم ہی ہوجائیں گے اور اگر کسی طرح زندہ رہ گئے تو زندگی کس قدر مشکل ہوجائے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے ہر چیز ایک مقدر کے مطابق بنائی ہے۔ اور اس جہاں کی چھوٹی اور بڑی ہر چیز کے پیچھے ایک تدبیر ہے اور ہر چیز اللہ نے ایک اندازے کے مطابق بنائی ہے۔

ومن رحمتہ جعل ۔۔۔۔۔ ولعلکم تشکرون (28: 73) ” یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لیے یہ رات اور دن بنائے تاکہ تم رات میں سکون حاصل کرو اور دن کو اپنے رب کا فضل تلاش کرو ، شاید کہ تم شکر گزار بنو “۔

پس رات سکون وقرار کے لیے ہے۔ دن سرگرمیوں اور جہدوجہد کے لیے ہے۔ اور دن کے اندر نکتہ توجہ یہ ہے کہ انسان کاروبار کرے اور رحمت الٰہی کی تلاش کرے۔ کیونکہ انسان کما کر ہی اللہ کے فضل سے کوئی چیز بطور شکر دوسروں کو دے سکتا ہے۔ اللہ نے تمہیں گردش لیل و نہار کی جو سہولت دی اس کی نعمت و رحمت ہے۔ پھر رات و دن کا ایک نظام کے ساتھ بدلتے رہنا بھی نعمت ہے اس کائنات کے دوسرے سنن اور قوانین طیبیہ اللہ نے پیدا کیے ہیں ، تم نے نہیں جاری کیے۔ اللہ نے ان قوانین کو اپنے علم و حکمت سے جاری کیا اور تم ان سے غافل ہو۔

یہ سبق قیامت سے ایک ایسے منظر پر ختم ہوتا ہے جو بڑی تیزی سے نظروں کے سامنے سے گزر جاتا ہے۔ اس منظر میں سرزنش کے طور پر مشرکین سے پوچھا گیا کہ کہاں ہیں وہ شریک جن کو تم شریک سمجھتے تھے۔ وہاں ان کو ان کے باطل موقف سے دوچار کیا جاتا ہے۔ سوال و جواب کے اس شرمسار کنندہ موقف میں یہ لوگ پگھل کر رہ جاتے ہیں اور ٹوٹ کر زمین پر گرتے ہیں۔