21:9 21:7 ایک تفسیر پڑھ رہے ہیں
وَمَاۤ
اَرْسَلْنَا
قَبْلَكَ
اِلَّا
رِجَالًا
نُّوْحِیْۤ
اِلَیْهِمْ
فَسْـَٔلُوْۤا
اَهْلَ
الذِّكْرِ
اِنْ
كُنْتُمْ
لَا
تَعْلَمُوْنَ
۟
وَمَا
جَعَلْنٰهُمْ
جَسَدًا
لَّا
یَاْكُلُوْنَ
الطَّعَامَ
وَمَا
كَانُوْا
خٰلِدِیْنَ
۟
ثُمَّ
صَدَقْنٰهُمُ
الْوَعْدَ
فَاَنْجَیْنٰهُمْ
وَمَنْ
نَّشَآءُ
وَاَهْلَكْنَا
الْمُسْرِفِیْنَ
۟
3

ومآ ارسلنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وما کانوا خلدین (12 : 8) (12 : 7 : 8) ” اور اے نبی ﷺ تم سے پہلے بھی ہم نے انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا جن پر ہم وحی کیا کرتے تھے۔ تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو۔ ان رسولوں کو ہم نے کوئی ایسا جسم نہیں دیا تھا کہ وہ کھاتے نہ ہوں اور نہ وہ سداجینے والے تھے “۔ اللہ کی حکمت کا تقاضایہی تھا کہ رسول انسان ہوں ‘ وہ اللہ سے وحی اخذ کریں اور لوگوں تک اسے پہنچائیں۔ اس سے قبل جس قدر رسول گزرے وہ جسم و جان رکھتے تھے اور جسم و جان رکھنے کے بعد وہ کھانا بھی کھاتے تھے ‘ کیونکہ کھانا جسم کا لازمی تقاضا ہے اور بشریت کے اعتبار سے اور جسمانیت کے اعتبار سے وہ دائمی زندگی والے بھی نہ تھے۔ اگر تم اس بات کو نہیں جانتے تو رسولوں کی جسدیت ‘ کھانے پینے کے بارے میں اہل کتاب سے معلومات حاصل کرلو کیونکہ کھانا لازمی تقاضا ہے اور بشریت کے اعتبار سے اور جسمانیت کے اعتبار سے وہ دائمی زندگی والے بھی نہ تھے۔ اگر تم اس بات کو نہیں جانتے تو رسولوں کی جسدیت ‘ کھانے پینے کے بارے میں اہل کتاب سے معلومات حاصل کرلو کیونکہ اہل کتاب عربوں کے مقابلے میں علوم انبیاء سے زیادہ علم رکھتے تھے۔

واقعہ یہ ہے کہ تمام رسول بشر تھے۔ انسانوں کی طرح زندہ رہتے تھے۔ تاکہ ان کی عملی زندگی شریعت کی صورت اختیار کرلے۔ ان کا عملی مڈل لوگوں کے لیے اعلیٰ زندگی کا ماڈل ہو ‘ کیونکہ جو دعوت زندہ ہو اور زندگی کی عملی شکل میں ماڈل اور نمونہ ہو وہی موثر بھی ہوتی ہے۔ کیونکہ لوگ دیکھتے ہیں کہ یہ دعوت عملاً مجسم شکل میں قائم ہے اور اس کو عملی شکل دے دی گئی ہے۔

اگر رسول غیر بشر ہوتے نہ کھاتے پیتے ‘ نہ بازاروں میں پھرتے ‘ عورتوں کے ساتھ ان کی معاشرت نہ ہوتی ‘ ان کے دلوں میں انسانی جذبات و میلانات نہ ہوتے تو ان کے اور لوگوں کے درمیان گہرا تعلق قائم نہ ہو سکتا۔ نہ وہ ان میلانات کو سمجھ سکتے جو انسان رکھتے ہیں اور نہ انسان ان کو اچھی طرح سمجھ سکتے اور نہ ان کی پیروی کرتے کیونکہ ان کی زندگی میں انسانوں کی پیروی کے لیے کوئی ماڈل ہی نہ ہوتا۔

اگر داعی جن لوگوں کو دعوت دیتا ہے ان کے رحجانات کو نہیں سمجھتا ‘ ان کے شعور ‘ جذبات اور خواہشات کو نہیں سمجھتا ‘ اور لوگوں کے اندر نہیں جاتا ان سے دور دور رہتا ہے ‘ وہ لوگوں کے ساتھ نہیں چلتا اور لوگ اس کے ساتھ نہیں چلتے وہ لوگوں کے سامنے جس قدر چلا چلا کر تقریریں کے تو لوگ اس کی تقریروں سے ہر گز متاثر نہ ہوں گے کیونکہ ان کے درمیان احساس و شعور کے فاصلے ہیں۔

ہر وہ داعی جس کا عمل اس کی بات کی تصدیق نہ کرے ‘ اس کے الفاظ لوگوں کے کانوں سے ٹکراکر واپس ہوں گے۔ دلوں کے اندر نہ اتر سکیں گے اگر چہ اس کے الفاظ زور دار ہوں اور اس کا کلام بلیغ ہو ‘ وہ سادہ بات جس کی پشت پر عمل ہوتا ہے جس سے کہنے والا خود متاثر ہوتا ہے ‘ وہی مفید ہو سکتی ہے اور لوگوں کے اندر حرکت پیدا کرسکتی ہے۔

جو لوگ یہ تجویز کرتے تھے کہ رسول کو ایک فرشتہ ہونا چاہیے ‘ جس طرح آج کل کے بعض لوگ رسول کو انسانی خواص سے عاری قرار دیتے ہیں ‘ یہ لوگ اس حقیقت سے بیخبر ہیں کہ فرشتے اپنی تخلیقی ساخت اور اپنی فطرت کے اعتبار سے انسانوں جیسی زندگی گزارہی نہیں سکتے کیونکہ وہ جسم اور اس کے تقاضوں کے مطابق انسان کے احساس و شعور کو سمجھنے کے اہل نہیں ہیں۔ لہٰذا اس اعتبار سے ان کے لیے انسانوں جیسی زندگی گزارنا ممکن ہی نہیں ہے۔ رسول کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان انسانی احساسات اور تقاضوں کو سمجھتا ہو اور اپنی عملی زندگی میں ان احساسات اور ان تقاضوں پر عمل بھی کرتا ہوتا کہ وہ لوگوں کے لیے عملی دستور حیات بن سکے۔

یہ باتیں تو اپنی جگہ پر ہیں لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر رسول فرشتہ ہو تو اس سورة میں اللہ تعالیٰ نے جنس بشری کو جو عظیم اعزاز دیا ‘ بشریت اس سے محروم ہوجاتی۔ یہ نہ ہوتا کہ انسانوں میں سے ایک انسان عالم بالا سے رابطہ قائم کرے یا اللہ سے ہمکلام ہو۔

بہرحال رسولوں کے انتخاب میں یہ اللہ کی سنت ہے کہ رسول بشر ہو اور یہ بھی سنت ہے کہ اللہ ان کو نجات دے اور مسرفین اور مکذبین کو ہلاک کردے۔

ثم صدقنھم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ المسرفین (12 : 9) ” پھر دیکھ لو کہ آخر کار ان کے ساتھ ہم نے اپنے وعدے پورے کیے اور انہیں جس کسی کو ہم نے چاہا ‘ بچا لیا اور مسرفین کو ہلاک کردیا “۔ تو رسولوں کے انتخاب کے لیے جو سنت ہے ‘ اسی طرح مکذبین کے لیے بھی یہ سنت ہے اور اللہ نے ان کو اور ان کے ساتھ فی الحقیقت ایمان لانے والوں کو بھی ہلاک کردیا۔ ایسے ایمان لانے والے جن کا عمل ان کے ایمان کی تصدیق نہ کرتا ہو۔ اللہ ان لوگوں کو ہلاک کرتا ہے جو حد سے گزرتے ہیں۔

مشرکین جو حضور اکرم ﷺ کو اور آپ ﷺ کے ساتھی مسلمانوں کو ایڈادیتے تھے اور ان کی تکذیب کرنے میں حد سے گزر گئے تھے ‘ ان کو اللہ اس سنت سے ڈراتا ہے اور ان کو سمجھا تا ہے کہ یہ ان پر اللہ کی بہت بڑی مہربانی ہے کہ اللہ نے کوئی مادی خارق عادت معجزہ نہیں بھیجا جس کو اگر یہ جھٹلا دیتے جس طرح اقوام سابقہ نے جھٹلایا تھا تو یہ بھی ہلاک کردیئے جاتے۔ اس خارق عادت معجزے کے بجائے اللہ تعالیٰ نے تمہیں قرآن کا معجزہ دیا ہے اور یہ کتاب تمہارے لیے باعث عزو شرف ہے کہ یہ تمہاری زبان میں ہے ‘ تمہاری زندگی کو استوار کرتی ہے اور یہ تمہاری تعمیر و تربیت اس طرح کرتی ہے کہ تمہیں وہ ایک قابل ذکر امت بنا دے۔ یہ کتاب لوگوں کے سامنے کھلی پڑی ہے ‘ چاہیے کہ وہ اس پر غور کریں اور اس کے ذریعہ انسانیت کے ارتقاء کی سیڑھی پر چڑھتے چلے جائیں۔