(آیت) ” نمبر 46۔
یہ ایک ایسے منظر کی تصویر کشی ہے جس میں وہ خود اپنے عقائد کے مطابق اللہ کے اس مجوزہ عذاب سے بچنے کی کوئی سبیل نہیں پاتے جبکہ ضمنا یہ بات بھی آجاتی ہے کہ یہ لوگ اللہ کے سوا جن دوسرے لوگوں کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں وہ بھی نہایت ہی عاجز ہیں ۔ البتہ اس منظر میں یہ دکھایا گیا ہے کہ اس مجوزہ عذاب کی تجویز نے ان لوگوں کو خوب جھنجھوڑا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فطرت انسانی کا خالق ہے ۔ اسے خوب علم ہے کہ اس فطرت کے اندر ادراک حقیقت کی حقیقی قوت بھی موجود ہے اور فطرت انسانی سچائی سے دور نہیں ہے ۔ فطرت انسانی کو اس بات کا ادراک ہے اور علی وجہ البصیرت ہے کہ یہ کام صرف اللہ کرسکتا ہے اور کوئی نہیں ۔ وہ قوت باصرہ ‘ قوت سامعہ اور قوت مدرکہ کو سلب بھی کرسکتا ہے اور لوٹا بھی سکتا ہے اور اس کے سوا کوئی اور یہ کام نہیں کرسکتا ۔
دل کو دہلا دینے اور اعضائے جسم پر کپکپی طاری کردینے والے اس منظر کے ذریعے اور عقیدہ شرک اور اللہ کے شرکاء کی زبوں حالی کا منظر پیش کرنے کے بعد اب سیاق کلام میں اس تعجب کا اظہار کیا جاتا ہے کہ جن لوگوں کے سامنے یہ مناظر اور یہ دلائل رکھے جارہے ہیں وہ پھر بھی بیمار اونٹ کی طرف جھکتے ہیں اور سیدھی راہ پر بھی ٹیڑھے چلتے ہیں ۔
(آیت) ” انظُرْ کَیْْفَ نُصَرِّفُ الآیَاتِ ثُمَّ ہُمْ یَصْدِفُونَ (46) دیکھو کس طرح ہم بار بار اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ “ یہ تعجب ان کی جانب سے جادہ حق سے ایک طرف چلنے کے منظر پر کیا جارہا ہے ۔ (یصدفون (6 : 46) کا مفہوم عربوں میں مشہور ہے ۔ فعل صدف کا صدور بیمار اونٹ سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان لوگوں کے بارے میں ایک قسم کا بہیمانہ اور قابل نفرت تصور دیا جاتا ہے جو ان کے لئے ایک لطیف توہین ہے ۔
ابھی اس متوقع مجوزہ تصوراتی منظر کے اثرات زائل نہ ہوئے تھے کہ ان کے سامنے اب ایک دوسرا متوقع منظر پیش کردیا جاتا ہے ۔ وہ خود بھی یقین رکھتے ہیں کہ اس مجوزہ منظر کو عملی شکل دینا اللہ کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ اس منظر میں انہیں یہ دکھایا جاتا ہے کہ اگر اللہ کا عذاب اچانک آگیا تو تم سوچو کہ اس کی زد میں ظالموں کے سوا اور کون آئے گا ؟ مشرکین ہی تو سب سے پہلے تباہ ہوں گے ۔ ایک جھلکی دکھائی جاتی ہے کہ جب اچانک عذاب آتا ہے تو ظالم اور مشرک نابود کردیئے جاتے ہیں ‘ چاہے یہ عذاب اچانک آئے یا اطلاع کے بعد کھلے بندوں آئے ۔