6:40 ile 6:41 arasındaki ayetler grubu için bir tefsir okuyorsunuz
قُلْ
اَرَءَیْتَكُمْ
اِنْ
اَتٰىكُمْ
عَذَابُ
اللّٰهِ
اَوْ
اَتَتْكُمُ
السَّاعَةُ
اَغَیْرَ
اللّٰهِ
تَدْعُوْنَ ۚ
اِنْ
كُنْتُمْ
صٰدِقِیْنَ
۟
بَلْ
اِیَّاهُ
تَدْعُوْنَ
فَیَكْشِفُ
مَا
تَدْعُوْنَ
اِلَیْهِ
اِنْ
شَآءَ
وَتَنْسَوْنَ
مَا
تُشْرِكُوْنَ
۟۠
3

ابو جہل کے لڑکے عکرمہ اسلام کے سخت دشمن تھے۔ وہ فتح مکہ تک اسلام کے مخالف بنے رہے۔ فتح مکہ کے دن انھوں نے ایک مسلمان کو تیر مار کر ہلاک کردیا تھا۔ عکرمہ ان اشخاص میں تھے جن کے متعلق فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا تھا کہ وه جہاں ملیں قتل کرديے جائیں۔

مکہ جب فتح ہوگیا تو عکرمہ مکہ چھوڑ کر جدہ کی طرف بھاگے۔ انھوں نے چاہا کہ کشتی کے ذریعہ بحر قلزم پار کرکے حبش پہنچ جائیں۔ مگر وہ کشتی میں سوار ہو کر سمندر میں پہنچے تھے کہ تند ہواؤں نے کشتی کو گھیر لیا۔ کشتی خطرہ میں پڑ گئی۔ کشتی کے مسافر سب مشرک لوگ تھے۔انھوں نے لات اور عزی وغیرہ اپنے بتوں کو مدد کے لیے پکارنا شروع کیا۔ مگر طوفان کی شدت بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ مسافروں کو یقین ہوگیا کہ اب کشتی ڈوب جائے گی۔ اب کشتی والوں نے کہا کہ اس وقت لات وعزی کچھ کام نہ دیں گے۔ اب صرف ایک خدا کو پکارو، وہی تم کو بچا سکتا ہے۔ چنانچہ سب ایک خدا کو پکارنے لگے۔ اب طوفان تھم گیااور کشتی واپس اپنے ساحل پر آگئی۔ عکرمہ پر اس واقعہ کا بہت اثر ہوا۔ انھوںنے کہا خدا کی قسم، دريا ميں اگر كوئي چيز خدا كے سوا كام نهيں آسكتي تو يقيناً خشكي ميں بھي خدا كے سوا كوئي دوسري چيز كام نهيں آسكتي۔ خدایا میں تجھ سے وعدہ کرتاہوں کہ اگر تو نے مجھ کو اس سے نجات دے دی جس میںاس وقت میں پھنسا ہوا ہوں تو میں ضرور محمد کے یہاں جاؤں گااور اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دوں گا اور مجھے یقین ہے کہ میں ان کو معاف کرنے والا درگزر کرنے والا اور مہربان پاؤں گا (اللَّهمّ إنّ لك عليّ عهدا إن عافيتني مما أنا فيه أن آتي محمدا حتى أضع يدي في يده، فلا أجدنّه إلا عفوّا كريما( الإصابۃ فی تمييز الصحابہ لابن حجر العسقلانی، جلد4، صفحہ 444

ساری تاریخ کا یہ مشاہدہ ہے کہ انسان نازک لمحات میں خدا کو پکارنے لگتا ہے۔ حتی کہ وہ شخص بھی جو عام زندگی میں خدا کے سوا دوسروں پر بھروسہ کیے ہو یا سرے سے خدا کو مانتا نہ ہو۔ یہ خدا کے وجود اور اس کے قادر مطلق ہونے کی فطری شہادت ہے۔ غیر معمولی حالات میں جب ظاہری پردے ہٹ جاتے ہیں اور آدمی تمام مصنوعی خیالات کو بھول چکا ہوتا ہے اس وقت آدمی کو خداکے سوا کوئی چیز یاد نہیں آتی۔ بالفاظ دیگر، مجبوری کے نقطہ پر پہنچ کر ہر آدمی خدا کا اقرار کرلیتاہے، قرآن کا مطالبہ یہ ہے کہ یہی اقرار اور اطاعت آدمی اس وقت کرنے لگے جب کہ بظاہر مجبور کرنے والی کوئی چیز اس کے سامنے موجود نہ ہو۔

بقیہ حیوانات اپنی جبلّت کے تحت حقیقت پسندانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر انسان کو جو چیز حقیقت پسندی اور اعتراف کی سطح پر لاتی ہے وہ خوف کی نفسیات ہے۔ حیوانات کی دنیا میں جو کام جبلت کرتی ہے، انسان کی دنیا میں وہی کام تقویٰ انجام دیتا ہے۔