คุณกำลังอ่าน tafsir สำหรับกลุ่มโองการ 21:1 ถึง 21:4
اِقْتَرَبَ
لِلنَّاسِ
حِسَابُهُمْ
وَهُمْ
فِیْ
غَفْلَةٍ
مُّعْرِضُوْنَ
۟ۚ
مَا
یَاْتِیْهِمْ
مِّنْ
ذِكْرٍ
مِّنْ
رَّبِّهِمْ
مُّحْدَثٍ
اِلَّا
اسْتَمَعُوْهُ
وَهُمْ
یَلْعَبُوْنَ
۟ۙ
لَاهِیَةً
قُلُوْبُهُمْ ؕ
وَاَسَرُّوا
النَّجْوَی ۖۗ
الَّذِیْنَ
ظَلَمُوْا ۖۗ
هَلْ
هٰذَاۤ
اِلَّا
بَشَرٌ
مِّثْلُكُمْ ۚ
اَفَتَاْتُوْنَ
السِّحْرَ
وَاَنْتُمْ
تُبْصِرُوْنَ
۟
قٰلَ
رَبِّیْ
یَعْلَمُ
الْقَوْلَ
فِی
السَّمَآءِ
وَالْاَرْضِ ؗ
وَهُوَ
السَّمِیْعُ
الْعَلِیْمُ
۟
3

ہر آدمی جو دنیا میں ہے وہ زندگی سے زیادہ موت سے قریب ہے۔ اس اعتبار سے ہر آدمی اپنے روزِ حساب کے عین کنارے کھڑا ہوا ہے۔ مگر انسان کا حال یہ ہے کہ وہ کسی بھی یادہانی پر توجہ نہیںدیتا، خواہ وہ پیغمبر کے ذریعہ کرائی جائے یا غیر پیغمبر کے ذریعہ۔حق کے داعی کی بات کو وہ بس ’’ایک انسان‘‘ کی بات کہہ کر نظر انداز کردیتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں جب قرآن کے ذریعہ دعوت شروع کی تو قرآن کا خدائی کلام لوگوں کے دلوں کو مسخر کرنے لگا۔ یہ وہاں کے سرداروں کے ليے بڑی سخت بات تھی۔ کیوں کہ اس سے ان کی قیادت خطرہ میں پڑ رہی تھی۔ قرآن توحید کی دعوت دیتاتھا، اور مکہ کے سردار شرک کے اوپر اپنی سرداری قائم کيے ہوئے تھے۔ انھوں نے لوگوں کے ذہن کو اس سے ہٹانے کے لیے یہ کیا کہ لوگوں سے کہا کہ اس کلام میں بظاہر جو تاثیر تم دیکھ رہے ہو وہ اس لیے نہیں ہے کہ وہ خدا کا کلام ہے۔ اس کا زور صداقت کا زور نہیں بلکہ جادو کا زور ہے۔ یہ جادو بیانی کا معاملہ ہے، نہ کہ آسمانی کلام کا معاملہ۔

اس قسم کی بات کہنے والے لوگ اگرچہ خدا کا نام لیتے ہیں مگر انھیں یقین نہیں کہ خدا انھیں دیکھ اور سن رہا ہے۔ اگر انھیں خدا کے عالم الغیب ہونے کا یقین ہوتاتو وہ ایسی غیر سنجیدہ بات ہر گز اپنی زبان سے نہ نکالتے۔