حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ نہیں کہا کہ پناہ خدا کی ، کہ ہم کسی چور کے بدلے ایک بےگناہ کو پکڑ لیں۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بھائی چور نہیں ہے ، اس لیے انہوں نے نہایت ہی ٹیکنیکل انداز تعبیر اختیار کیا۔ اگرچہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی زبان مصری ہوگی لیکن قرآن نے ان کی جو حالت بتائی ہے ظاہر ہے وہ اصل کے مطابق ہے۔ “ جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ”۔ ان الفاظ میں بالکل سادہ حقیقت کا اظہار ہے ، نہ الزام ہے اور اس کی طرف اشارہ کہ مال رکھا کس نے۔
انا اذا لظلمون “ اگر ہم دوسرے کو گرفتار کریں تو ہم ظالم ہوں گے ”۔ بس یہ آخری بات تھی ۔ وہ سمجھ گئے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ اب وہ سوچنے لگے کہ والد کو کس طرح منہ دکھائیں گے۔