وَكَذٰلِكَ
فَتَنَّا
بَعْضَهُمْ
بِبَعْضٍ
لِّیَقُوْلُوْۤا
اَهٰۤؤُلَآءِ
مَنَّ
اللّٰهُ
عَلَیْهِمْ
مِّنْ
بَیْنِنَا ؕ
اَلَیْسَ
اللّٰهُ
بِاَعْلَمَ
بِالشّٰكِرِیْنَ
۟
3

(آیت) ” أَلَیْْسَ اللّہُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاکِرِیْنَ (53)

” ہاں ! کیا خدا اپنے شکر گزار بندوں کو ان سے زیادہ نہیں جانتا ہے ؟ “

اس تریدد میں بہت کچھ ہدایات اور اشارات دیئے گئے ، پہلی ہدایت یہ دی گئی کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل وکرم ان لوگوں پر کرتا ہے جن کے بارے میں اللہ کے علم میں یہ بات ہوتی ہے کہ وہ شکر نعمت بجا لائیں گے ، اگرچہ کوئی بندہ اللہ کے انعام کا حق ادا نہیں کرسکتا لیکن بندہ شکر نعمت کے میدان میں جو حقیر سی کوشش بھی کرے اللہ اسے قبول کرتا ہے اور اس حقیر سے شکر پر اسے وہ انعام دیتا ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے ۔

اس آیت میں یہ بتایا گیا کہ نعمت ایمان کا تعلق ان حقیر اقدار سے نہیں ہے جو اس دنیا پر چھائے ہوئے جاہلی ظالموں میں اہمیت رکھتی ہیں ۔ ایمان کی دولت اللہ ان لوگوں کو نصیب کرتا ہے جن کے بارے میں اللہ کو علم ہے کہ وہ شکر بجا لائیں گے ‘ اگرچہ وہ غلام ‘ ضعیف اور نادار ہوں کیونکہ اللہ کے ترازو میں دنیا کی دولت اور مال کا کوئی وزن نہیں ہے ۔ انہیں صرف جاہلیت ہی اہمیت دیتی ہے حالانکہ اللہ کے نزدیک ان میں کوئی وزن نہیں ہوتا ہے ۔

اس جواب میں یہ فیصلہ بھی کردیا ہے کہ دراصل یہ اعتراض ہو لوگ کرتے ہیں جو چیزوں کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتے ۔ اللہ دولت ایمان کو جب تقسیم فرماتے ہیں تو وہ خوب جانتے ہیں کہ اس کا مستحق کون ہے ۔ اس سلسلے میں اگر کوئی اعتراض کرے گا تو ایک تو وہ جاہل ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ نہایت گستاخ بھی ہوگا ۔

چناچہ رسول اللہ ﷺ کو ہدایت دی جاتی ہے کہ آپ آغاز دعوت ان لوگوں سے کریں جن پر اللہ نے فضل فرمایا ‘ سب سے پہلے انہیں نعمت ایمان سے نوازا ‘ ان کو سابقون الاولون کی فضیلت دی گئی اور جن سے یہ کبراء اور اشراف نفرت کرتے ہیں ۔ حکم دیا جاتا ہے کہ آپ سب سے پہلے انہیں سلام کریں اور اس کے بعد انہیں خوشخبری دیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر ان کے لئے رحمت فرض کرلی ہے اور اگر ان میں سے کسی سے دور جاہلیت میں کوئی غلطی صادر ہوئی ہے تو وہ معاف ہے بشرطیکہ وہ توبہ کرے اور اصلاح کرلے ۔