Po lexoni një tefsir për grupin e vargjeve 41:26 deri në 41:28
وَقَالَ
الَّذِیْنَ
كَفَرُوْا
لَا
تَسْمَعُوْا
لِهٰذَا
الْقُرْاٰنِ
وَالْغَوْا
فِیْهِ
لَعَلَّكُمْ
تَغْلِبُوْنَ
۟
فَلَنُذِیْقَنَّ
الَّذِیْنَ
كَفَرُوْا
عَذَابًا
شَدِیْدًا ۙ
وَّلَنَجْزِیَنَّهُمْ
اَسْوَاَ
الَّذِیْ
كَانُوْا
یَعْمَلُوْنَ
۟
ذٰلِكَ
جَزَآءُ
اَعْدَآءِ
اللّٰهِ
النَّارُ ۚ
لَهُمْ
فِیْهَا
دَارُ
الْخُلْدِ ؕ
جَزَآءً
بِمَا
كَانُوْا
بِاٰیٰتِنَا
یَجْحَدُوْنَ
۟
3

وَٱلْغَوْا۟ فِيهِ کی تشریح حضرت عبد اللہ بن عباس نے عَيِّبُوهُ (تفسیر ابن کثیر، جلد7، صفحہ 174 )کے لفظ سے کی ہے۔ یعنی قرآن اور صاحب قرآن میں عیب لگاؤ اور اس طرح لوگوں کو اس سے دور کردو۔

کسی بات یا کسی شخص کے بارے میں اظہار رائے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تنقید، دوسرا تعییب۔ تنقید کا مطلب ہے حقائق کی بنیاد پر زیر بحث امر کا تجزیہ کرنا۔ اس کے برعکس، تعییب یہ ہے کہ آدمی زیر بحث مسئلہ پر دلائل پیش نہ کرے۔ وہ صرف اس میں عیب نکالے وہ اس پر الزام لگا کر اس کو مطعون کرے۔

تنقید کا طریقہ سراسر جائز طریقہ ہے۔ مگر تعییب کا طریقہ اہلِ کفر کا طریقہ ہے۔ مزید یہ کہ تعییب کا طریقہ خدا کی نشانیوں کا انکار ہے۔ کیوں کہ ہر سچی دلیل خدا کی ایک نشانی ہے۔ جو لوگ دلیل کے آگے نہ جھکیں اور عیب جوئی اور الزام تراشی کا طریقہ اختیار کرکے اس کو دبانا چاہیں وہ گویا خدا کی نشانی کا انکار کررہے ہیں۔ ایسے لوگ آخرت میں نہایت سخت سزا کے مستحق قرار دئے جائیں گے۔