وَقَالَ
مُوْسٰۤی
اِنِّیْ
عُذْتُ
بِرَبِّیْ
وَرَبِّكُمْ
مِّنْ
كُلِّ
مُتَكَبِّرٍ
لَّا
یُؤْمِنُ
بِیَوْمِ
الْحِسَابِ
۟۠
3

آیت نمبر 27

حضرت موسیٰ نے یہ بات کہہ دی اور مطمئن ہوگئے اور اپنی حفاظت کا معاملہ اس ذات کے سپرد کردیا جو ہر متکبر سے بلند ہے۔ ہر جبار کے اوپر ہے اور تمام دوسرے جباروں سے بھاگ کر اس کی پناہ میں آنے والوں کی حفاظت کرتا ہے۔ حضرت نے یہ کہا کہ وہ اس رب کی پناہ میں ہیں جو خود میں ہیں جو خود ان کافروں کا بھی رب ہے اور ہمارا بھی رب ہے ، اللہ نے ہمیں بھلا نہیں دیا اور نہ فرعون کی دھمکیوں کے مقابلے میں بےسہارا چھوڑدیا ہے۔ یہ لوگ تو یوم الحساب پر ایمان نہیں رکھتے ۔ اس لیے یہ زمین میں اپنی کبریائی قائم کرتے ہیں۔ کوئی شخص جو قیامت کی جوابدہی پر ایمان رکھتا ہو وہ متکبر نہیں بن سکتا۔ کیونکہ وہ تصور کرسکتا ہے کہ قیامت کے دن لوگ کس قدر ذلیل ، سہمے ہوئے اور ڈرے ہوئے ہوں گے۔ کوئی قوت اور طاقت اور کوئی سہارا نہ ہوگا ، نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی سفارشی ہوگا اور نہ کوئی فدیہ دیا جاسکے گا۔

اب یہاں منظر پر خود فرعون کے حاشیہ نشینوں میں سے ایک شخص آتا ہے۔ اس کے دل پر سچائی اثر انداز ہوگئی لیکن اس نے اپنا ایمان ابھی چھپارکھا ہے۔ یہ شخص حضرت موسیٰ کی مدافعت میں آواز بلند کرتا ہے ، کوشش کرتا ہے کہ لوگ حضرت موسیٰ کے قتل سے باز آجائیں۔ یہ اپنی تقریر میں مختلف پہلوؤں سے بات کرتا ہے۔ یہ اپنی ناصحانہ باتیں ان کے دلوں میں اتارنے کی کوشش کرتا ہے ، ان کے اچھے جذبات کو ابھارتا ہے ، ان کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے اور انجام بد سے بھی ڈراتا ہے۔