وَقَالَ
یٰبَنِیَّ
لَا
تَدْخُلُوْا
مِنْ
بَابٍ
وَّاحِدٍ
وَّادْخُلُوْا
مِنْ
اَبْوَابٍ
مُّتَفَرِّقَةٍ ؕ
وَمَاۤ
اُغْنِیْ
عَنْكُمْ
مِّنَ
اللّٰهِ
مِنْ
شَیْءٍ ؕ
اِنِ
الْحُكْمُ
اِلَّا
لِلّٰهِ ؕ
عَلَیْهِ
تَوَكَّلْتُ ۚ
وَعَلَیْهِ
فَلْیَتَوَكَّلِ
الْمُتَوَكِّلُوْنَ
۟
3

آیت نمبر 67

حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا (ان الحکم الا للہ ) اس پر گہرے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ اس بات کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے تقدیری اور جبری احکام اس کائنات میں اس طرح رواں اور دواں ہیں کہ ان کے اندر کوئی انغکاک ممکن نہیں ہے۔ کوئی تخلف نہیں ہے۔ ان احکام سے کوئی مغر نہیں ہے۔ اور امنت باللہ میں والقدر خیرہ وشرہ من اللہ تعالیٰ کا یہی مطلب ہے۔

اللہ کے تکوینی اور تقدیری احکام اس دنیا میں لوگوں پر نافذ ہوتے ہیں اور ان کا اجراء خود لوگوں کی مرضی اور ارادے پر موقوف نہیں ہے۔ ان جبری اور تقدیری احکام الہیہ کے ساتھ ساتھ ایسے الٰہی احکام بھی ہوتے ہیں جو انسانوں کے دائرہ اختیار میں ہوتے ہیں۔ اور یہ شرعی احکام ہیں جو قرآن اور سنت میں امرو نہی صادر نہیں کرسکتا۔ ان احکام کا حکم بھی تقدیری اور تکوینی احکام کی طرح ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ شرعی احکام میں لوگ مختار ہیں ، ان کو نافذ کریں یا نہ کریں ، اور اسی پر دنیا اور آخرت میں ان کی زندگی کے اعمال پر نتائج اور احکام مرتب ہوتے ہیں اور ہوں گے۔ اور سزا اور جزاء کا فیصلہ ہوگا۔ لیکن لوگ اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتے جب تک وہ اللہ کے شرعی احکام کو بھی اپنی پوری زندگیوں میں نافذ نہ کریں۔