قَالَ
لَنْ
اُرْسِلَهٗ
مَعَكُمْ
حَتّٰی
تُؤْتُوْنِ
مَوْثِقًا
مِّنَ
اللّٰهِ
لَتَاْتُنَّنِیْ
بِهٖۤ
اِلَّاۤ
اَنْ
یُّحَاطَ
بِكُمْ ۚ
فَلَمَّاۤ
اٰتَوْهُ
مَوْثِقَهُمْ
قَالَ
اللّٰهُ
عَلٰی
مَا
نَقُوْلُ
وَكِیْلٌ
۟
3

حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے مجبور ہو کر ان کے اس مطالبے کو تسلیم کیا لیکن ایک شرط لگا دی اور بہت ہی کڑی شرط۔

قال لن ارسلہ۔۔۔۔۔۔ یحاط بکم (12 : 66) ان کے باپ نے کہا “ میں اس کو ہرگز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا۔ جب تک کہ تم اللہ کے نام سے مجھ کو ۔۔۔ نہ دے دو کہ اسے میرے پاس ضرور واپس لے کر آؤ گے الا یہ کہ تم گھیر ہی لیے جاؤ ”۔

یعنی تم اللہ کی قسم اٹھا کر یہ یقین دلاؤ گے کہ تم اسے لے کر آؤ گے الا یہ کہ تم سب کے سب گھیر لیے جاؤ اور تمہارے نکل آنے کی کوئی تدبیر نہ رہے اور ایسے حالات ہوں کہ تم بےبس ہوجاؤ۔

فلما اتوہ موثقھم ۔۔۔۔۔۔ وکیل (12 : 66) “ جب انہوں نے اس کو اپنے اپنے ۔۔۔۔ دے دئیے تو اس نے کہا ، “ دیکھو ، ہمارے اس قول پر اللہ نگہبان ہے ”۔ یعنی نہایت تاکید کے طور پر اور بات کو پختہ کرنے کے لئے اور زیادہ نصیحت اور خدا خوفی کے لئے خدا کو شاہد کردیا۔ اس تاکید مزید کے بعد اب حضرت یعقوب (علیہ السلام) ان کو زیادہ نصیحت کرتے ہیں کہ مصر کی مملکت میں داخلے کے وقت احتیاطی تدابیر اختیار کرو۔