آدمی کو کان اور آنکھ اور دل جیسی صلاحیتیں دینا ظاہر كرتا ہے کہ اس کا خالق اس سے کیا چاہتا ہے۔ خالق یہ چاہتا ہے کہ آدمی بات كو سنے اور دیکھے، وہ عقلی دلیل سے اس کو مان لے۔ اگر آدمی اپنی ان خداداد صلاحیتوں سے وہ کام نہ لے جو اس سے مقصود ہے تو گویا وہ اپنے کو اس خطرہ میں ڈال رہاہے کہ اس کو نا اہل قرار دے کر یہ نعمتیں اس سے چھین لی جائیں۔ کس قدر محروم ہے وہ شخص جس کو اندھا اور بهرا اور بے عقل بنادیا جائے۔ کیوں کہ ایسا آدمی دنیا میں بالکل ذلیل اور بے قیمت ہو کر رہ جاتا ہے۔ پھر اس سے بھی بڑی محرومی یہ ہے کہ آدمی کے پاس بظاہر کان ہوں مگر وہ حق کو سننے کے لیے بہرے ہوجائیں۔ بظاہر آنکھ ہو مگر وہ حق کو دیکھنے کے لیے اندھی ہو۔ سینہ میں دل موجود ہو مگر وہ حق کو سمجھنے کی استعداد سے خالی ہوجائے۔ چھیننے کی یہ قسم پہلی قسم سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ کیوں کہ وہ آدمی کو آخرت کے اعتبار سے ذلیل اور بے قیمت بنا دیتی ہے جس سے بڑی محرومی کوئی دوسری نہیں۔
آدمی کو انکار حق کے انجام سے ڈرایا جائے تو ڈھیٹ آدمی بے خوفی کا جواب دیتا ہے۔ دنیا میں اپنے معاملات کو درست دیکھ کر وہ سمجھتا ہے کہ خدا کی پکڑ کا اندیشہ اس کے اپنے لیے نہیں ہے۔ حتی کہ جو زیادہ ڈھیٹ ہیں وہ حق کے داعی سے کہتے ہیں کہ تم اگر سچے ہو تو عذاب کو لاکر دکھاؤ۔ وہ نہیں سمجھتے کہ خدا کا عذاب آیا تو وہ خود انھیں کے اوپر پڑے گا، نہ کہ کسی دوسرے کے اوپر۔
اللہ کا داعی منذر اور مبشر بن کر آتا ہے۔ بالفاظ دیگر، آدمی کا امتحان خدا کے یہاں جس بنیاد پر ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی آگاہی کی زبان میں حق کو پہچانے اور اپنی اصلاح کرلے۔ اگر اس نے آگاہی کی زبان میں حق کو نہ پہچانا اور اس کو ماننے کے لیے طلسمات وعجائبات کا مطالبہ کیا تو گویا وہ اندھے پن کا ثبوت دے رہا ہے اور اندھوں کے لیے خدا کی اس دنیا میں بھٹکنے اور برباد ہونے کے سوا کوئی انجام نہیں۔