Você está lendo um tafsir para o grupo de versos 41:1 a 41:8
حٰمٓ
۟ۚ
تَنْزِیْلٌ
مِّنَ
الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
۟ۚ
كِتٰبٌ
فُصِّلَتْ
اٰیٰتُهٗ
قُرْاٰنًا
عَرَبِیًّا
لِّقَوْمٍ
یَّعْلَمُوْنَ
۟ۙ
بَشِیْرًا
وَّنَذِیْرًا ۚ
فَاَعْرَضَ
اَكْثَرُهُمْ
فَهُمْ
لَا
یَسْمَعُوْنَ
۟
وَقَالُوْا
قُلُوْبُنَا
فِیْۤ
اَكِنَّةٍ
مِّمَّا
تَدْعُوْنَاۤ
اِلَیْهِ
وَفِیْۤ
اٰذَانِنَا
وَقْرٌ
وَّمِنْ
بَیْنِنَا
وَبَیْنِكَ
حِجَابٌ
فَاعْمَلْ
اِنَّنَا
عٰمِلُوْنَ
۟
قُلْ
اِنَّمَاۤ
اَنَا
بَشَرٌ
مِّثْلُكُمْ
یُوْحٰۤی
اِلَیَّ
اَنَّمَاۤ
اِلٰهُكُمْ
اِلٰهٌ
وَّاحِدٌ
فَاسْتَقِیْمُوْۤا
اِلَیْهِ
وَاسْتَغْفِرُوْهُ ؕ
وَوَیْلٌ
لِّلْمُشْرِكِیْنَ
۟ۙ
الَّذِیْنَ
لَا
یُؤْتُوْنَ
الزَّكٰوةَ
وَهُمْ
بِالْاٰخِرَةِ
هُمْ
كٰفِرُوْنَ
۟
اِنَّ
الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا
وَعَمِلُوا
الصّٰلِحٰتِ
لَهُمْ
اَجْرٌ
غَیْرُ
مَمْنُوْنٍ
۟۠
3

درس نمبر 227 تشریح آیات

آیت نمبراتا 8

حروف مقطعات کے بارے میں بات کئی سورتوں میں ہوچکی ہے اور اس افتتاح مکرر ” تم “ میں بھی وہی اشارہ ہے جس طرح قرآن کریم کا یہ قاعدہ ہے کہ وہ بار بار ان حقائق کی طرف اشارہ کرتا ہے جو انسانی دل و دماغ پر اثر ڈالتے ہیں اور تکرار اس لیے کہ انسان کو باربار یاد دہانی کی ضرورت ہے۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی نظر سے نصب العین اوجھل ہوجاتا ہے اور اس کے ذہین میں کوئی بھی شعوری حقیقت بٹھانے کے لیے ۔ اسے باربار تنبیہہ کی ضرورت ہوتی ہے اور قرآن کا نازل کرنے والا اپنے تخلیق کردہ فطرت انسانی سے خوب واقف ہے۔ اور اس کے خصائص اور صلاحیتیں اسی نے عطا کی ہیں اس لیے وہ باربار یاد دلاتا ہے ، وہ خالق قلب اور مصرف القلوب ہے۔

حٰم ۔۔۔۔ الرحیم (41: 1 تا 2) ” یہ حدائے رحمٰن ورحیم کی طرف سے نازل کردہ چیز ہے “۔ حم گویا سورت کا نام یا جنس قرآن جو انہی حروف سے بنایا گیا ہے۔ حم مبتداء ہے اور تنزیل خبر ہے یعنی یہ ہیں حم (جن سے قرآن بنا ہے جو ) رحمٰن ورحیم کی طرف سے نازل ہورہا ہے۔

نزول کتاب کے وقت رحمن ورحیم کے ذکر کا مطلب یہ ہے کہ اس تنزیل کی صفات عالیہ رحمت الہیہ ہے۔ اور یہ کتاب اور حاصل کتاب بطور رحمت اللعالمین آئے۔ یہ صرف ان لوگوں پر رحمت نہیں ہے جو ایمان لائیں اور اس کی اطاعت کریں۔ بلکہ غیروں کے لیے بھی رحمت ہے صرف انسانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام زندہ لوگوں کے لیے رحمت ہے کیونکہ اس کتاب نے ایک ایسا منہاج حیات دنیا کو دیا جس کی وجہ سے پوری دنیا متاثر ہوئی۔ انسانیت کو نئی زندگی ملی۔ اس کو تصورات دیئے ، اس کو علم دیا اور عرض اس قرآن نے انسانیت کے آگے بڑھنے کی سمت ہی بدل کر رکھ دی۔ قرآن کے رحیمانہ اثرات صرف اہل ایمان تک محدود نہ رہے بلکہ اس کے اثرات عالمی تھے اور اس وقت سے آج تک یہ اثرات جاری ہیں۔ جو لوگ انسانی تاریخ کا مطالعہ انصاف سے کرتے ہیں اور اس کا عام انسانی زاویہ سے مطالعہ کرتے ہیں اور اس مطالعہ میں انسانی سرگرمیوں کا پوری طرح احاطہ کرتے ہیں وہ اس حقیقت کو پاتے ہیں اور نکتے پر مطمئن بھی ہوتے ہیں کہ قرآن رحمت اللعالمین ہے ، بعض منصف مزاج لوگوں نے اس بات کا اعتراف کرکے اس نکتے پر مطمئن بھی ہوتے ہیں کہ قرآن رحمت اللعالمین ہے ، بعض منصف مزاج لوگوں نے اس بات کا

اعتراف کرکے اس کو ریکارڈ کرادیا ہے۔

کتٰب۔۔۔ یعلمون (41: 3) ” ایک ایسی کتاب جس کی آیات خوب کھول کر بیان کی گئی ہیں ، عربی زبان کا قرآن ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں “۔ یعنی اغراض ومقاصد کے لحاظ سے ، لوگون کی طبیعت کے مطابق ، معاشروں اور زمانوں کے مطابق ، لوگوں کی نفسیات اور انکی ضروریات کے مطابق اس کی آیات کو نہایت پختہ انداز میں مفصل بنایا گیا ہے۔ اور یہ اس کتاب کی امتیازی خصوصیت ہے اس زاویہ سے یہ کتاب مفصل اور محکم ہے۔ ان تمام پہلوؤں سے یہ کتاب مفصل ہے۔ پھر عربی زبان میں ہے۔

لقوم یعلمون (41: 3) ” ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں “۔ یعنی جن کے پاس علمی استعداد ہے وہ سمجھ سکتے ہیں اور کھرے کھوٹے میں تمیز کرسکتے ہیں۔ اس قرآن کے نزول کا بڑا مقصد بشارت اور ڈراوا ہے۔

بشیراونذیرا (41: 4) ” بشارت دینے والا اور ڈرانے والا “۔ یہ قرآن مومنین کو بشارت دیتا ہے اور مکذبین اور بدکاروں کو ڈراتا ہے اور پھر خوشخبری اور ڈراوے کے اسباب بھی بتاتا ہے۔ یہ اسباب وہ عربی مبین میں بتاتا ہے اور ان لوگوں کے سامنے پیش ہورہا ہے جو عرب ہیں لیکن ان کی اکثریت اسے قبول نہیں کررہی ہے۔

فاعرض اکثرھم فھم لایسمعون (41: 4) ” مگر ان لوگوں میں سے اکثر نے اس سے روگردانی کی اور وہ سن کر نہیں دیتے “۔

اور یہ لوگ روگردانی اس لیے کرتے تھے اور نہ سنتے تھے اور اپنے دلوں کو روگردانی کرکے قرآن سننے سے بچاتے تھے۔ کیونکہ قرآن غضب کی تاثیر رکھتا ہے اس لیے جو جمہور عوام کو بھی اس بات پر ابھارتے تھے کہ نہ سنو جس طرح عنقریب اس کی تفصیلات آئیں گی۔

وقالوالا۔۔۔۔۔ تغلبون (41: 26) ” منکرین حق کہتے ہیں اس قرآن کو نہ سنو اور جب یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو ، شاید کہ اس طرح تم غالب آجاؤ “۔ بعض اوقات وہ سنتے تھے لیکن اس طرح جیسے کہ نہ سنتے ہوں ، اس لیے قرآن کے ان پر جو اثرات پڑتے تھے ، ہٹ دگرمی کی وجہ سے ان کا مقابلہ کرتے تھے۔ گویا وہ بہرے ہیں ، سنتے ہی نہیں۔

وقالوا قلوبنا۔۔۔۔ عملون (41: 5) ” کہتے ہیں : جس چیز کی طرف تو ہمیں بلارہا ہے اس کے لیے ہمارے دلوں میں غلاف چڑھے ہوئے ہیں ، ہمارے کان بہرے ہوگئے ہیں اور ہمارے اور تیرے درمیان ایک حجاب حائل ہوگیا ہے ، تو اپنا کام کر ، ہم اپنا کام کیے جارہے ہیں “ یہ بات وہ گہری ہٹ دھرمی اور عناد کی وجہ سے کہتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کو مایوس کرنے کے لیے کہتے تھے تاکہ آپ دعوت دینا بند کردیں کیونکہ وہ آپ کی دعوت کا اثر خود اپنے دلوں میں پاتے تھے اور وہ بالا راوہ اس موقف پر جمے ہوئے تھے کہ ہرگز ایمان نہ لائیں گے۔

چناچہ انہوں نے کہا کہ ہمارے دل غلافوں میں ڈھنپے ہوئے ہیں ، تمہاری بات تو ہمارے دلوں تک پہنچتی ہی نہیں ۔ ہمارے کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں ، لہٰذا تمہاری بات ہم تک پہنچتی ہی نہیں۔ تمہارے اور ہمارے درمیان پردے حائل ہیں ، اس لیے رابطے کی کوئی صورت ہی باقی نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیں ، ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے کہ تم کیا کرتے ہو ، کیا کہتے ہو ، کس سے ڈارتے ہو ، کس کا وعدہ کرتے ہو ، ہم اپنی راہ پر چلنے والے ہیں۔ تم چاہو تو اپنی راہ پر چلو ، تمہاری جو مرضی ہے ، کرو۔ ہم نے سن کر نہیں دینا۔ جس عذاب سے تم ہمیں ڈراتے ہو وہ لے ہی آؤ۔ ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے۔

یہ تھے وہ حالات و مشکلات جن سے داعی اول ﷺ دوچار تھے۔ لیکن اس کے باوجود آپ دعوت دیتے جاتے تھے۔ کبھی رکے نہیں تھے۔ ان مایوس کن حالات سے کبھی آپ متاثر نہیں ہوئے ، کبھی آپ نے یہ نہیں سوچا کہ اتنا عرصہ ہوگیا ، اللہ کا وعدہ سچا نہیں ہوا اور نہ دشمنوں پر عذاب آیا۔ آپ یہی کہتے کہ اللہ کے وعدے کا پورا ہونا میرے اختیار میں نہیں ہے۔ میں تو ایک بشر ہوں۔ اللہ کا پیغام میرے پاس آتا ہے اور میں تبلیغ کرتا ہوں ، لوگوں کو اللہ واحد کی طرف بلاتا ہوں اور جو مان لیں ، ان سے کہتا ہوں کہ اسی راستے پر جم جاؤ، اور مشرکین کو انجام بد سے ڈراتا ہوں اس کے بعد کے مراحل میرے اختیار میں نہیں۔ میں تو ایک بشر اور مامور ہوں۔

قل انمآ۔۔۔۔۔ وویل المشرکین (41: 6) ” اے نبی ؐ، ان سے کہو ، میں تو ایک بشر ہوں تم جیسا۔ مجھے وحی کے ذریعہ سے بتایا جاتا ہے کہ تمہار خدا تو بس ایک ہی خدا ہے ، لہذا تم سیدھے اسی کا رخ اختیار کرو اور اس سے معافی چاہو۔ تباہی ہے ان مشرکوں کے لیے “۔ کس قدر عظیم صفر ہے ! کس قدر برداشت ہے ! کیا عظیم ایمان ہے اور تسلیم ورضا ہے ! لیکن ایسی صورت حال کو صرف وہی داعی سمجھ سکتا ہے ، ایسے حالات پر وہی صبر کرسکتا ہے ، اس قسم کے حالات میں سرف وہی ماحول سے لاپرواہ ہوکر دعوت دیتے آگے بڑھ سکتا ہے اور اعراض ، تکذیب ، تکبر اور توہین آمیز سلوک کو برداشت کرسکتا ہے جو ایسے حالات سے دوچار ہوگیا ہو ، جس نے تجربہ کرلیا ہو کہ جلد بازی نہیں کرنی ، جس نے روگردانی کرنے والوں ، متکبرین اور سرکشوں کی مدافعت کی ہو ، جس نے دعوت کی راہ میں مشقت برداشت کی ہو ، اور جس نے دعوت کی راہ میں مشقت برداشت کرنے کا حوصلہ پایا ہو اور پھر ان مشکلات کے باوجود وہ ڈٹ گیا ہو۔

ایسے ہی مقامات کی وجہ سے انبیاء ورسل کو باربار ہدایت کی گئی ہے کہ صبر کریں ، کیونکہ دعوت کی راہ صبر کی راہ ہے۔ طویل صبر ، اور صبر کی آزمائش سب سے پہلے اس خواہش میں ہوتی ہے ، جو بہت شدید ہوتی ہے کہ دعوت جلدی کامیاب ہوجائے۔ نصرت جلدی آجائے ، نصرت کے نشانات بھی نہ ہوں لیکن داعی صبر ، استقامت اور تسلیم ورضا سے کام کیے جارہا ہو۔ اور ان مشکلات ، روگردانیوں اور کبر و لاپرواہی کے جواب میں رسول اللہ صرف یہ کہتے ہیں۔

وویل للمشرکین۔۔۔۔۔ ھم کٰفرون (41: 6 تا 7) ” تباہی ہے ان مشرکون کے لیے جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور آخرت کے منکر ہیں “۔ اس مقام پر زکوٰۃ کے ذکر کی کوئی مناسبت ہوگی ، کسی روایت میں اس کا ذکر نہیں آیا ، کیونکہ یہ آیت مکی ہے اور زکوٰۃ سن دوہجری میں مدینہ میں فرض ہوئی۔ اگرچہ اصولا مکہ مکرمہ میں بھی معروف تھی۔ مدینہ میں فرضیت کے ساتھ نصاب بھی مقرر ہوگیا ۔ اور اسے معین فرض وصول کیا جانے لگا۔ مکہ میں یہ ایک عام کام تھا۔ لوگ رضا کارانہ طور پر زکوٰۃ دیتے تھے۔ اس کی کوئی حد نہ تھی اور ادائیگی دینے والے کے ضمیر پر چھوڑدی گئی تھی۔ کفر بالاخرۃ تو وہی کفر ہے جس کے نتیجے میں انسان دائمی تباہی کا مستحق ہوجاتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس آیت کی تفسیر میں زکوٰۃ سے مراد ایمان لانا اور شرک سے پاک ہونا لیا ہے۔ یہ مفہوم بھی رد نہیں کیا جاسکتا ، ایسے حالات میں اس کا احتمال ضرور ہے۔

اب داعی حق ان کو یہ بتانے کے لیے کہ کفر وشرک کا ارتکاب کرکے وہ کس قدر عظیم جرم کا ارتکاب کررہے ہیں ۔ ان لوگوں کو اس کائنات کی سیر کراتے ہیں کہ ذرا تم زمین و آسمانوں پر مشتمل اس عظیم کائنات پر غور تو کرو ، کہ تم اس کے مقابلے میں کس قدر چھوٹے ہو ، کس قدر کمزور ہو ، یہ سیر اس لیے کرائی جاتی ہے کہ ذرا وہ اللہ کی بادشاہت کو بھی دیکھ لیں جس کا وہ انکار کرتے ہیں کیونکہ انسان بھی فطرت کائنات کا ایک نہایت ہی حقیر جزء ہے اور تاکہ وہ ان کو بتائیں کہ اس دعوت کی طرف تم نہایت ہی تنگ زاویہ نظر سے دیکھ رہے ہو ، تم صرف یہ دیکھ سکتے ہو کہ ہمچو مادیگرے نیست۔ تم تو صرف اپنے آپ کو اور حضرت محمد ﷺ کی ذات کو دیکھتے ہو اور تم یہ سوچتے ہو کہ محمد ابن عبداللہ کو اگر مان لیا تو وہ بلند مقام پر فائز ہوجائے گا۔ تمہیں تو یہ تنگ نظری اس عظیم حقیقت کے دیکھنے سے روکے ہوئے ہے جو حضرت محمد ﷺ لے کر آئے ہیں ، جس کی تفصیلات قرآن کریم میں درج ہیں۔ یہ حقیقت جس کا تعلق آسمانوں ، زمین ، انسان ، پوری انسانی تاریخ اور اس عظیم سچائی کے ساتھ ہے جو زمان ومکان سے وراء ہے۔ اور جسے اس کائنات کے نقشے میں رکھا گیا ہے :