آیت نمبر 51 تا 55
اس دوٹوک موقف پر یہ فیصلہ کن تبصرہ بہت ہی مناسب ہے۔ انسانیت وک معلوم ہوگیا کہ حق و باطل کی کشمکش کا آخری انجام کیا ہوا کرتا ہے۔ اس دنیا میں دونوں کا انجام کیا ہوتا ہے اور آخرت میں دونوں کا انجام کیا ہوگا۔ انسانوں نے دیکھ لیا کہ فرعون اور اس کے سرداروں کا انجام اس دنیا میں کیا ہوا جس طرح انہوں نے قیامت کے منظر میں دیکھ لیا کہ وہ آگ میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ لڑ رہے تھے۔ اور ان کو نہایت حقارت کے ساتھ ناقابل التفات چھوڑدیا گیا ۔ ہر کشمکش کا فیصلہ یہی ہوتا ہے جس طرح قرآن کا صریح فیصلہ ہے۔
انالنضر۔۔۔۔ الدار (40: 51 تا 52) ” یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں ، اور اس روز بھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے ، جب ظالموں کو ان کی معذرت کچھ بھی فائدہ نہ دے گی اور ان پر لعنت پڑے گی اور بدترین ٹھکانا ان کے حصے میں آئے گا “۔ رہی آخرت تو کسی مومن کی جانب سے تو اس کے بارے میں کسی بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر بحث ہوسکے ۔ رہی دنیا میں نصرت تو اس کی تشریح کی ضرورت ہے۔ بہرحال اللہ کا فیصلہ اور وعدہ تو یقینی ہے۔ قطعی الفاظ میں ہے۔
انا لننصر۔۔۔۔ الدنیا (40: 51) ” بیشک ہم اپنے رسولوں اور لوگوں کی جو ایمان لائے دنیا کی زندگی میں مدد کرتے ہیں “۔ لیکن لوگوں کا مشاہدہ یہ ہے کہ رسولوں میں سے بعض تو قتل کیے گئے ، بعض کو اپنی زمین سے بھی نکالا گیا۔ ان کو اپنا گھر اور قوم چھوڑنا پڑی اور علاقہ بدر کردیئے گئے۔ مومنین میں سے بعض بعض کو سخت عذاب دیا جاتا ہے۔ بعض کو گڑھوں میں جلایا جاتا ہے ، بعض شہید ہوتے ہیں ، بعض نہایت دکھ درد اور مصیبتیں جھیلتے ہیں تو پھر یہ قطعی وعدہ کس طرح ہے کہ ہم حیات دنیا میں اپنے رسولوں اور مومنین کی مدد کرتے ہیں۔ اس سوال کے ذریعہ شیطان اللہ کے بندوں پر حملہ آور ہوتا ہے اور ان کے ساتھ کیا کچھ کرتا ہے ؟ تو حقیقت کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ لوگ تمام امور کے ظاہری پہلو ہی کو جانتے ہیں۔ ان کے سامنے وہ بیشتر قدریں اور حقائق نہیں ہوتے۔ جن کا تعلق اللہ کے نظام وقدر سے ہوتا ہے۔۔۔ پھر لوگوں کی سوچ ، اعمال ونتائج کے بارے میں ایک محدود زمانے تک محدود ہوتی ہے اور انسان کے قیاس اور سوچ کا دائرہ محدود ہوتا ہے ، رہے اللہ کے فیصلے تو زمان ومکان کے اعتبار سے ان کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک زمانے اور دوسرے زمانے میں جدائی نہیں کرتا۔ ایک علاقے اور دوسرے علاقے میں فرق نہیں کرتا۔ اگر ہم زمان و مکان کے حدود سے آگے بڑھ کر ایمان کے مسئلہ پر سوچیں تو حقیقت یہ سامنے آئے گی کہ ایمان کامیاب رہتا ہے۔ ایمان اور عقیدے کی کامیابی دراصل ان لوگوں کی کامیابی ہوتی ہے جو ایمان اور عقیدے کو اپناتے ہیں۔ اہل ایمان سے باہر کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ اور ایمان کا پہلا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ ایمان لانے والے اس میں فنا ہوجائیں۔ وہ خود مٹ جائیں اور ایمان کو نمایاں کردیں۔
پھر نصرت کا مفہوم بھی لوگوں کے ہاں محدود ہے۔ وہ قریبی نصرت دیکھتے ہیں جسے وہ خود دیکھ سکیں ۔ لیکن نصرت کی
اشکال تو بیشمار ہیں۔ بعض اوقات تو یوں ہوتا ہے کہ انسان کو نصرت بطاہر شکست نظر آتی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینکا جاتا ہے لیکن وہ اپنے عقیدے اور دعوت سے نہیں پھرتے ۔ سوال یہ ہے کہ ان کو نصرت ہوئی یا وہ شکست کھاگئے ایمان کے پیمانوں سے دیکھا جائے تو ان کو فتح ہوئی۔ اس وقت بھی وہ فاتح تھے ، جب ان کو آگ میں پھینکا جارہا تھا اور اس وقت بھی فاتح تھے ان کو نجات دی گئی۔ یہ بھی فتح کی ایک صورت ہے اور آگ کا گلزار ہوتا بھی اس کی ایک صورت ہے۔ جبکہ بظاہر دونوں کی صورتیں مختلف ہیں۔ لیکن اپنی اصلیت میں دونوں ایک ہیں ۔ حضرت حسین ؓ کربلا میں شہادت پاتے ہیں۔ یہ ایک دلدوز واقعہ ہے۔ یہ فتح تھی یا شکست ۔ اگر بظاہر محدود پیمانوں سے دیکھا جائے تو شکست تھی۔ اور اگر حقیقت کے پیمانوں سے دیکھا جائے تو یہ عظیم فتح ہے۔
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
حسین کو آج تک محبت کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ آج تک لوگوں کے دل حسین کے ساتھ ہیں آج تک لوگ ان پر فدا ہوتے ہیں جبکہ فاتح یزید کا نام ونشان غائب ہے۔ حسین پر شیعہ سنی سب فدا ہیں اور یزید کے بارے میں کوئی نہیں کہتا کہ وہ اولاد یزید ہے یا یزید ہی ہے۔
کئی ایسے شہداء ہیں کہ اگر وہ ہزار سال زندہ رہتے تو اپنے نظریات کو پھیلانہ سکتے ۔ لیکن ایک شہادت سے ان کے نظریات اقطار عالم تک پھیل گئے۔ کوئی بھی شہید اپنے بیان اور تقریروں سے عوام کو بلند مقاصد عطا نہیں کرسکتا ۔ نہ عوام کو بلند مقاصد کے لیے ابھار سکتا ہے۔ لیکن اپنے خون کے زریعہ وہ جو خطبہ دیتا ہے اور وہ اس کا آخری خطاب ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محرک ہوتا اور نسلوں تک نشان منزل رہتا ہے۔ اور بعض اوقات تو ایک شہید جو راہ متعین کرتا ہے صدیوں تک تاریخ اس پر چلتی رہتی ہے اور قافلے اسی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔
تو پھر فتح کیا ہے اور ہزیمت کیا ہے ؟ ہمیں چاہئے کہ فتح وشکست کے جو پیمانے ہمنے اپنے ذہنوں میں قائم کر رکھے ہیں ان پر ذرا نظرثانی کریں۔ اور اس کے بعد پھر پوچھیں کہ اللہ کی وہ مدد کہاں ہے ، جس کا وعدہ اللہ نے مومنین سے کیا ہے ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ ہاں بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ جب ظاہری صورت حال ، اللہ کے اعلیٰ اور دور رس پیمانوں کے ساتھ موافق ہوجاتی ہے تو فوری فتح بھی نصیب ہوجاتی ہے۔ حضرت محمد ﷺ کو اللہ نے اپنی زندگی ہی میں نصرت اور کامرانی عطا فرمائی تھی کیونکہ دنیا میں اسلامی نظریہ حیات کی حقیقت اور یہ نصرف ساتھ ساتھ قائم ہوگئی تھیں۔ عقیدے کو نصرت تب ملتی ہے جب عقیدہ انسانی سوسائٹی پر غالب آجائے اور وہ سوسائٹی اس کے رنگ میں رنگ کرا سکے اندر ڈوب جائے۔ ایک فرد ایک جماعت اور ایک قوت حاکمہ سب کی سب اس میں ڈوب جایں تو پھر اللہ ایسے دوعیوں اور ایسی دعوت کی مدد کرتا ہے اور یہ نظریہ اور یہ نظام اپنی حقیقی صورت میں پھر قائم ہوجاتا ہے اور یہ نظام غالب ہو کر تاریخ پر اپنے نقوش چھوڑتا ہے۔ اور تاریخ پر اسکے یہ نقوش نمایاں نظر آتے ہیں۔ یوں قریبی نصرت کی صورت اور دوررس مقاصد کی صورت باہم متصل ہوجاتی ہیں۔ اب بظاہر نصرت عاجلہ ظہور میں آتی ہے جو دوررس سنت الہیہ کا حصہ ہوتی ہے۔ یوں سنت الہیہ اور تقدیر الہٰی کے اندر ایک فوری فتح کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔
اس معاملے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جس کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ اللہ کا وعدہ اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کے ساتھ قائم ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ وعدے کے مستحق ہونے والے مومنین کے دلوں کے اندر حقیقت ایمان صحیح طرح قائم اور جاگزیں ہوجائے تاکہ اس پر اللہ کا وعدہ مرتب ہو۔ حقیقت ایمان کے سلسلے میں بسا اوقات لوگ سہل انگاری سے کام لیتے ہیں۔ ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ قلب مومن میں شرک کا شائبہ تک نہ رہے۔ کسی قسم کی شرک بھی دل کے قریب نہ ہو۔ شرک کی بعض صورتیں نہایت خفیہ ہوتی ہیں۔ ان سے دل پاک وصاف اس وقت ہوتا ہے جب انسان صرف اللہ وحدہ کی طرف متوجہ ہو۔ اور صرف اللہ وحدہ پر توکل کرے۔ اور اللہ انسان کے بارے میں جو فیصلہ کرے اس پر وہ مطمئن ہوجائے۔ اور انسان اپنے آپ کو تقدیرالہٰی کے سپرد کردے۔ انسان کے اندر یہ حساس ہو کہ اس کے معاملات میں صرف اللہ ہی متصرف ہے۔ لہٰذا اس کے لیے اللہ جو اختیار کرتا ہے اس پر وہ کسی حال میں حیران نہ ہو اور اس کو جو پیش آئے اسے نہایت اطمینان ، اعتماد اور سرتسلیم خم کرکے قبول کرے۔ جب انسان تسلیم ورضا کے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو وہ بھی اللہ کے آگے نہیں بڑھتا اور جلد بازی نہیں کرتا۔ اور اللہ کے سامنے فتح ونصرت اپنی پسندیدہ صورت میں پیش نہیں کرتا۔ اپنے معاملات اللہ کے حوالے کردیتا ہے اور اپنی راہ پر گامزن رہتا ہے ۔ اسے اسی راہ میں جو بھی پیش ہے ، وہ اسے خیر سمجھتا ہے۔ یہ ہے حقیقی نصرت۔۔۔۔ یہ ہے نصرت اور فتح اپنی ذات ، اپنی خواہشات پر۔ یہ ہے اندرونی فتح اور خالص فتح تب ہی ہوتی ہے ، جب اندرونی فتح مکمل ہو۔
انالنضر۔۔۔۔ الدار (40: 51 تا 52) ” یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں ، اور اس روز بھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے ، جب ظالموں کو ان کی معذرت کچھ بھی فائدہ نہ دے گی اور ان پر لعنت پڑے گی اور بدترین ٹھکانا ان کے حصے میں آئے گا “۔
سابقہ منظر میں ہم نے دیکھا کہ ظالموں کے لیے کوئی معذرت مفید نہیں ہے۔ اور ان کا انجام یہ ہوا کہ ان پر لعنت پڑی اور جہنم رسید ہوئے۔ رہی یہ بات کہ اللہ رسولوں کی مدد کس طرح کرتا ہے تو اس کی ایک صورت یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اللہ نے مدد فرمائی ۔
ولقداتینا۔۔۔۔ الالباب (40: 54) ” آخر کار دیکھ لو کہ موسیٰ کی ہم نے رہنمائی کی اور بنی اسرائیل کو اس کتاب کا وارث بنادیا جو عقل و دانش رکھنے والوں کے لئے ہدایت ونصیحت تھی “۔ یہ اللہ کی نصرت کا ایک نمونہ تھا کہ حضرت موسیٰ کو کتاب دی ، ہدایت دی اور پھر نجات دی۔ یہاں بطور مثال قصہ موسیٰ کی طرف اشارہ کردیا۔ یہ قصہ بہت ہی طویل ہے اور اس میں نصرت اور تائید خداوندی کے کئی نمونے ہیں۔
اس مثال کے بعد ایک آخری تسلی کیونکہ مکہ میں مسلمان اور رسول اللہ بہت ہی مشکل حالات میں زندگی بسر فرما رہے تھے
، ان کو تسلی دی جارہی ہے کہ نصرت ضرور آئے گی اور رسول اللہ کے بعد جو لوگ دعوت اسلامی کا کام کررہے ہیں اور ایسے ہی حالات میں ہیں۔ ان کے لیے بھی ایسی ہی تسلی ہے۔
فاصبران۔۔۔۔ والابکار (40: 55) ” اے نبی ، صبر کرو ، اللہ کا وعدہ برحق ہے ، اپنے قصوروں کی معافی چاہو اور صبح وشام اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو “۔ عقل وخرد کی تاروں پر یہ آخری ضرب ہے۔ صبر کی دعوت ، لوگوں کی جانب سے تکذیب پر صبر کرو ، اس پر صبر کرو کہ باطل کو اقتدار حاصل ہے اور اس کی وجہ سے وہ پھیل رہا ہے لیکن یہ ایک عرصے کے لیے ہے ، لوگوں کے مزاج ۔ ان کے اخلاق اور ان کے معاملات کی غلطیوں پر صبر کرو ، انسان کے نفس ، اس کی خواہشات اور چاہتوں پر صبر کرو۔ خصوصاً جب نفس یہ چاہے کہ اللہ کی نصرت بہت جلد آنی چاہئے اور نصرت کے نتیجے میں ہونے والی کامیابیوں اور تحریک اسلامی کی طویل جدوجہد میں دشمنوں سے بھی پہلے دوستوں کی طرف سے پیدا کی جانے والی مشکلات پر صبر کرو۔
فاصبر ان وعد اللہ حق (40: 55) ' اے نبی صبر کرو ، اللہ کا وعدہ حق ہے “۔ دیر آید درست آید۔ اگر آپ کے معاملات پیچیدہ ہوں ۔ اگر بظاہر اسباب نصرت نہ نظر آتے ہوں۔ کیونکہ نصرت کا وعدہ وہ ذات باری کر رہی ہے جو اپنے وعدے کو حقیقت کا جامہ پہناسکتی ہے اور اللہ نے وعدہ کیا ہے تو اللہ نے ارادہ کرلیا ہے۔
واستغفر ۔۔۔ والابکار (40: 55) ” اور اپنے قصور کی معافی چاہو اور صبح وشام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو “۔ یہ ہے اصلی زاد سفر۔ نہ راہ بہت طویل ہے اور دشوار گزار ہے۔ اس میں وہی شخص آگے قدم بڑھا سکتا ہے جو اپنے قصوروں کی معافی چاہتا رہے۔ جو حمد باری تعالیٰ کرتا رہے اور حمد کے ساتھ اللہ کی تسبیح اور پاکی بیان کرتا رہے۔ اس میں نصرت بھی مل سکتی ہے ، اور نفس انسانی کی تربیت بھی۔ اور اس راستے پرچلنے کی تیاری بھی اور قلب ونظر کی تطہیر بھی۔ یہ وہ نصرت ہے جو قلب تعداد کے اندر بھی اپنا کام کرتی ہے اور اس کے بعد نصرت کی وہ صورت سامنے آتی ہے جو زندگی کی عملی صورت میں ہوتی ہے۔
صبح وشام کا ذکر یا تو اس لیے ہے کہ اس سے مراد پورا وقت ہے کیونکہ صبح وشام اوقات کے اطراف ہیں۔ یا ان اوقات میں انسانی قلب صاف اور متوجہ ہوتا ہے اور ان اوقات میں غور وفکر اور اللہ کی حمد وتسبیح کے اثرات گہرے ہوتے ہیں۔
یہ ہے وہ منہاج جس کے مطابق اللہ کی نصرت حاصل ہوسکتی ہے اور اسے اللہ نے اپنی نصرت دینے کے لیے مقرر فرمایا ہے
۔ اسی کے مطابق اس راستے پر شلنے کی تیاری ہوگی ، زاوسفر تیار ہوگا۔ اور تب نصرت ملے گی اور کسی بھی معرکے کے لیے تیاری اور
سازو سامان کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی جنگ بغیرتربیت اور سامان کے نہیں ہوسکتی۔