Você está lendo um tafsir para o grupo de versos 21:3 a 21:4
لَاهِیَةً
قُلُوْبُهُمْ ؕ
وَاَسَرُّوا
النَّجْوَی ۖۗ
الَّذِیْنَ
ظَلَمُوْا ۖۗ
هَلْ
هٰذَاۤ
اِلَّا
بَشَرٌ
مِّثْلُكُمْ ۚ
اَفَتَاْتُوْنَ
السِّحْرَ
وَاَنْتُمْ
تُبْصِرُوْنَ
۟
قٰلَ
رَبِّیْ
یَعْلَمُ
الْقَوْلَ
فِی
السَّمَآءِ
وَالْاَرْضِ ؗ
وَهُوَ
السَّمِیْعُ
الْعَلِیْمُ
۟
3

آیت 3 لَاہِیَۃً قُلُوْبُہُمْ ط ”ان کا غیر سنجیدہ رویہ اس حد تک ان کے دلوں میں گھر کر گیا ہے کہ انہوں نے زندگی کو بھی ایک کھیل ہی سمجھ رکھا ہے۔ہَلْ ہٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ج ”رسول اللہ ﷺ سے کلام اللہ سن کر اگر ان کا کوئی ساتھی متاثر ہوتا تو اسے الگ لے جا کر بڑے ناصحانہ انداز میں سمجھاتے کہ ارے تم خواہ مخواہ اپنے جیسے ایک انسان کو اللہ کا رسول اور اس کی باتوں کو اللہ کا کلام سمجھ رہے ہو۔ اس کی باتوں پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ ”تم جانتے بھی ہو کہ یہ کلام وغیرہ سب جادو کا کمال ہے۔ تو کیا تم جانتے بوجھتے ہوئے اس کا شکار ہونے جا رہے ہو ؟ ان کی اس طرح کی سرگرمیوں کی خبریں حضور ﷺ تک بھی پہنچتی تھیں۔ آپ ﷺ کو یقیناً اس سے بہت صدمہ پہنچتا ہوگا کہ اگر کوئی اللہ کا بندہ ہدایت قبول کرنے پر آمادہ ہوا تھا تو اس کو پھر ورغلا کر بھٹکا دیا گیا ہے۔ چناچہ آپ ﷺ ان کے آپس کے شیطانی مشوروں کا سنتے تو یوں فرماتے :