Você está lendo um tafsir para o grupo de versos 21:16 a 21:17
وَمَا
خَلَقْنَا
السَّمَآءَ
وَالْاَرْضَ
وَمَا
بَیْنَهُمَا
لٰعِبِیْنَ
۟
لَوْ
اَرَدْنَاۤ
اَنْ
نَّتَّخِذَ
لَهْوًا
لَّاتَّخَذْنٰهُ
مِنْ
لَّدُنَّاۤ ۖۗ
اِنْ
كُنَّا
فٰعِلِیْنَ
۟
3

وما خلقنا السمآ ئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مما تصفون (61 : 81) ”

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو ایک حکمت اور اسکیم کے مطابق پیدا کیا ہے ‘ اس کا ایک مقصد ہے ۔ یہ کائنات محض کھیل تماشے کے طور پر نہیں پیدا کی گئی۔ یہ ایک حکیمانہ فعل ہے ‘ محض اتفاقی عمل نہیں ہے۔ جس سنجیدگی ‘ سچائی اور مقصدیت کے ساتھ زمین و آسمان کو پیدا کیا گیا ہے ‘ اس کے ساتھ رسولوں کو بھی بھیجا گیا ہے۔ کتابیں نازل کی گئی ہیں ‘ فرائض منصبی مقرر ہوئے اور شریعت اور قانون بنائے گئے ہیں۔ لہٰذا مقصدیت اور سنجیدگی اس کائنات کی اساس ہے۔ اس کے چلانے کا بھی ایک مقصد ہے۔ اس میں انسانوں کو ایک نظریہ دینے میں بھی ایک مقصد ہے اور موت کے بعد حساب و کتاب میں بھی مقصدیت اور سنجیدگی ہے۔

اگر اللہ تعالیٰ کوئی کھلونا بنانا چاہتا تو اپنے ہاں بنا لیتا۔ ایک ذاتی کھیل ہوتا اور اللہ کی دوسری مخلوقات سے اس کا کوئی تعلق نہ ہوتا۔ یہ محض الزامی اور جدلی فرض ہے۔ ” اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے پاس ہی سے کرلیتے “۔ جس طرح نحوی لوگ کہتے ہیں کہ یہ صرف امتناع برائے امتناع ہے۔ یعنی ” لو “ کے بعد ایک فقرہ شرط ہوتا ہے اور دوسرا جواب شرط ۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان دونوں فقروں کا واقع ہونن ناممکن اور ممتنع ہے۔ چونکہ اللہ نے ارادہ ہی نہیں کیا اس لیے لہو و لعب ہوا ہی نہیں ہے۔ نہ اللہ کے ہاں کوئی لہو ہوا اور نہ خارج میں کسی معاملے میں ہوا۔ اور یہ لہو ولعب ممکن ہی نہیں اس لیے کہ اس کی طرف اللہ کا ارادہ متوجہ ہی نہیں ہوا۔

ان کنا فعلین (12 : 71) کے معنی ہیں ما کنا فعلین یعنی ہم نے ایسا کرنا ہی نہ تھا ‘ ایسا کرنے والے ہی نہ تھے۔ تو یہ ایک فرض ہے برائے مباحثہ اور اس سے یہ حقیقت ثابت کرنا ہے کہ اللہ کی ذات سے متعلق جو امور بھی ہیں وہ اللہ کی ذات کی طرح قدیم ہیں۔ دائمی ہیں ‘ فانی نہیں ہیں۔ اگر اللہ لہو کا ارادہ کرتا تو یہ لہو ایک نیا معاملہ نہ ہوتا۔ یہ بھی ذات باری کی طرح قدیم ہوتا۔ ازلی ہوتی اور ابدی ہوتا کیونکہ اس کا تعلق ذات ازلی اور باقی سے ہوتا ۔ اسی لیے ” من لدنا “ کا لفظ استعمال ہوا ” اپنے ہی پاس “ لیکن اللہ کا طے شدہ قانون تو یہ ہے کہ کوئی معاملہ کھیل کے طور پر نہ ہو ‘ بلکہ ہر معاملہ سنجیدگی اور سچائی کے ساتھ ہو۔ اور وہ حق ہو۔ یوں حق باطل پر غالب آتا ہے۔