Você está lendo um tafsir para o grupo de versos 12:80 a 12:82
فَلَمَّا
اسْتَیْـَٔسُوْا
مِنْهُ
خَلَصُوْا
نَجِیًّا ؕ
قَالَ
كَبِیْرُهُمْ
اَلَمْ
تَعْلَمُوْۤا
اَنَّ
اَبَاكُمْ
قَدْ
اَخَذَ
عَلَیْكُمْ
مَّوْثِقًا
مِّنَ
اللّٰهِ
وَمِنْ
قَبْلُ
مَا
فَرَّطْتُّمْ
فِیْ
یُوْسُفَ ۚ
فَلَنْ
اَبْرَحَ
الْاَرْضَ
حَتّٰی
یَاْذَنَ
لِیْۤ
اَبِیْۤ
اَوْ
یَحْكُمَ
اللّٰهُ
لِیْ ۚ
وَهُوَ
خَیْرُ
الْحٰكِمِیْنَ
۟
اِرْجِعُوْۤا
اِلٰۤی
اَبِیْكُمْ
فَقُوْلُوْا
یٰۤاَبَانَاۤ
اِنَّ
ابْنَكَ
سَرَقَ ۚ
وَمَا
شَهِدْنَاۤ
اِلَّا
بِمَا
عَلِمْنَا
وَمَا
كُنَّا
لِلْغَیْبِ
حٰفِظِیْنَ
۟
وَسْـَٔلِ
الْقَرْیَةَ
الَّتِیْ
كُنَّا
فِیْهَا
وَالْعِیْرَ
الَّتِیْۤ
اَقْبَلْنَا
فِیْهَا ؕ
وَاِنَّا
لَصٰدِقُوْنَ
۟
3

درس نمبر 110 تشریح آیات

80 ۔۔۔۔ تا۔۔۔۔ 101

برادران یوسف اب برادر خورد کے چھڑانے سے مایوس ہوچکے ہیں۔ یوسف (علیہ السلام) کے دربار سے ذرا ہٹ کر وہ ایک مجلس مشاورت منعقد کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک عجیب منظر ہے ۔ سیاق کلام میں سب کے اقوال و تجاویز کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔ البتہ اس مشاورت کا آخری قول اور فیصلہ کن تجویز یہاں دے دی گئی۔

آیت نمبر 80 تا 82

برادران یوسف (علیہ السلام) میں سے بڑے بھائی سب سے پہلے ان کو یاد دلاتے ہیں کہ والد نے تم سے پختہ عہد لیا ہے اور یہ کہ اس سے پہلے تم یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ بھی زیادتی کرچکے ہو ، اور وہ اس کا اقرار کرلیتے ہیں۔ پھر ہو فیصلہ کن تجویز دیتے ہیں کہ وہ مصر کو اس وقت تک نہ چھوڑیں گے جب تک ان کے والد اجازت نہیں دیتے یا اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ نہیں فرماتے ، اللہ کے فیصلے کے وہ بہرحال پابند ہیں۔ وہ کیا کریں ؟ تو ان سے انہوں نے کہا کہ تم جاؤ اور باپ سے صاف صاف کہو کہ آپ کے بیٹے نے چوری کا ارتکاب کیا ہے۔ پکڑا گیا ، یہ ہے ان کا علم اور مشاہدہ۔ اگر وہ بری الذمہ اور بےگناہ ہے اور اصل حقیقت کچھ اور ہے تو اس سے وہ بیخبر ہیں۔ ان کو بالکل یہ توقع نہ تھی کہ ان کو ایسا حادثہ پیش آئے گا۔ یہ تو ہے اس معاملے کا ظاہری پہلو ، اگر اصل بات کوئی اور ہو تو وہ امر غیبی ہوگی اور ہم اس کو نہیں جانتے۔ نہ جاننے کے مکلف ہیں اور یہ بات ان کی نسبت غیب ہی تھی اور کوئی شخص غیبی واقعات کا دفاع نہیں کرسکتا۔ اور یہ کہ اگر آپ کو ہماری بات پر یقین نہیں آتا تو آپ ، شہر کے دوسرے لوگوں سے پوچھ سکتے ہیں اور پھر مصر سے ہم جس قافلے کے ساتھ آئے ہیں ، اس سے بھی پوچھ سکتے ہیں کیونکہ وہ اکیلے تو نہ تھے ، آج کل مصر کو قافلے پر قافلہ جارہا ہے اور وہاں سے لوگ غلہ لے کر آتے ہیں۔ مصر کے گرد تمام علاقے قحط کی لپیٹ میں ہیں ، سخت خشک سالی ہے۔

٭٭٭

اب وہ کس حال میں واپس آئے ، سفر کس طرح بےہوا ، یہاں ان تفصیلات کو حذف کردیا گیا ہے۔ یہ لوگ اب غم زدہ باپ کے سامنے کھڑے ہیں۔ انہوں نے ماجرا سنا دیا۔ غم زدہ باپ کا صرف ایک مختصر جواب سیاق کلام میں نقل کردیا جاتا ہے۔ نہایت ہی اندوہناک الفاظ میں ۔ لیکن ان کے کلام میں اب بھی امید کی ایک کرن باقی ہے۔ وہ توقع کرتے ہیں کہ خدا دونوں بچے ان کو واپس کر دے گا۔ بلکہ تینوں کو واپس کر دے گا۔ کیونکہ تیسرا بھی مصر میں دھرنا مار کر بیٹھ گیا ہے۔ اس بوڑھے باپ کے شکستہ دل میں اب بھی ایک عجیب امید ہے۔ یہ ہے پیغمبرانہ بصیرت !