Je leest een tafsir voor de groep verzen 41:1tot 41:5
حٰمٓ
۟ۚ
تَنْزِیْلٌ
مِّنَ
الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
۟ۚ
كِتٰبٌ
فُصِّلَتْ
اٰیٰتُهٗ
قُرْاٰنًا
عَرَبِیًّا
لِّقَوْمٍ
یَّعْلَمُوْنَ
۟ۙ
بَشِیْرًا
وَّنَذِیْرًا ۚ
فَاَعْرَضَ
اَكْثَرُهُمْ
فَهُمْ
لَا
یَسْمَعُوْنَ
۟
وَقَالُوْا
قُلُوْبُنَا
فِیْۤ
اَكِنَّةٍ
مِّمَّا
تَدْعُوْنَاۤ
اِلَیْهِ
وَفِیْۤ
اٰذَانِنَا
وَقْرٌ
وَّمِنْ
بَیْنِنَا
وَبَیْنِكَ
حِجَابٌ
فَاعْمَلْ
اِنَّنَا
عٰمِلُوْنَ
۟
3

پیغمبر کی دعوت بے آمیز دین کی دعوت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس لوگوں کا حال یہ ہے کہ اکثر وہ اپنے اکابر کے دین پر ہوتے ہیں۔ ان کے اوپر ان کی قومی روایات اور زمانی افکار کا غلبہ ہوتاہے۔ اس بنا پر پیغمبر کا بے آمیز دین ان کے فکری ڈھانچہ میں نہیں بیٹھتا۔ وہ ان کو اجنبی دکھائی دیتاہے۔ یہ فرق پیغمبر اور لوگوں کے درمیان ایک ذہنی دیوار کی طرح حائل ہوجاتا ہے۔ لوگ پیغمبر کی دعوت کو اس کے اصل روپ میں دیکھ نہیں پاتے۔ اس ليے وہ اس کو ماننے پر بھی تیار نہیں ہوتے۔

پیغمبر کی دعوت بجائے خود انتہائی مدلّل ہوتی ہے۔ وہ اپنی ذات میں اس بات کا ثبوت ہوتی ہے کہ وہ خدا کی طرف سے آئی ہوئی بات ہے ۔ مگر مذکورہ ذہنی دیوار اتنی طاقت ور ثابت ہوتی ہے کہ انسان اس سے نکل کر پیغمبر کی دعوت کو دیکھ نہیں پاتا۔ خدا انسان کےلیے اپنی رحمت کے دروازے کھولتا ہے مگر انسان اس کے اندر داخل نہیں ہوتا۔