Je leest een tafsir voor de groep verzen 40:4tot 40:6
مَا
یُجَادِلُ
فِیْۤ
اٰیٰتِ
اللّٰهِ
اِلَّا
الَّذِیْنَ
كَفَرُوْا
فَلَا
یَغْرُرْكَ
تَقَلُّبُهُمْ
فِی
الْبِلَادِ
۟
كَذَّبَتْ
قَبْلَهُمْ
قَوْمُ
نُوْحٍ
وَّالْاَحْزَابُ
مِنْ
بَعْدِهِمْ ۪
وَهَمَّتْ
كُلُّ
اُمَّةٍ
بِرَسُوْلِهِمْ
لِیَاْخُذُوْهُ
وَجٰدَلُوْا
بِالْبَاطِلِ
لِیُدْحِضُوْا
بِهِ
الْحَقَّ
فَاَخَذْتُهُمْ ۫
فَكَیْفَ
كَانَ
عِقَابِ
۟
وَكَذٰلِكَ
حَقَّتْ
كَلِمَتُ
رَبِّكَ
عَلَی
الَّذِیْنَ
كَفَرُوْۤا
اَنَّهُمْ
اَصْحٰبُ
النَّارِ
۟
3

آیت نمبر 4 تا 6

اس فیصلے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ بہت ہی صفات رکھتا ہے اور وہ وحدہ لاشریک ہے ، اب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ حقائق ، اس کائنات کی ہر چیز کی طرف سے مسلم ہیں کیونکہ اس کائنات کی فطرت ان حقائق کے ساتھ مربوط ہے اور یہ تعلق براہ راست ہے جس میں تنازعہ اور کوئی مجادلہ نہیں ہے۔ یہ پوری کائنات بڑے اطمینان سے آیات الہیہ کو تسلیم کرتی ہے ، اللہ کی وحدانیت پر شاہد عادل ہے ۔ اور اس میں مجادلہ وہی لوگ کرتے ہیں جو کفر پر تلے ہوئے ہیں اور یہ لوگ اس کائنات سے منحرف ہیں۔

مایجادل۔۔۔۔ کفروا (40: 4) ” اللہ کی آیات میں جھگڑے نہیں کرتے مگر وہی لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے “۔” یہی لوگ “ یعنی اس کائنات میں سے وہی لوگ اکیلے ان آیات کا انکار کرتے ہیں جو کفر پر تلے ہوئے ہیں۔ اس عظیم مخلوقات میں سے صرف یہی لوگ منحرف ہیں۔ اور ان کی اس عظیم الشان دجود میں چیونٹی سے بھی کم حیثیت ہے۔ جس طرح اس کرۂ ارض کی نسبت سے ایک چیونٹی حقیر شے ہے۔ اس طرح اس کائنات کے حوالے سے انسان ایک چیونٹی سے بھی کم ہے۔ لیکن جھگڑتا ہے یہ حضرت انسان اللہ کی نشانیوں کے بارے میں ، جبکہ یہ عظیم کائنات اہل کفر کے مقابلے میں کھڑی ہے۔ اور حق تعالیٰ کا اعتراف کررہی ہے۔ اور عزیز وجبار کی قوتوں کی معترف ہے۔ یہ لوگ ، اس موقف میں انجام کے خلاف کھڑے ہیں۔ یہ لوگ چاہے دنیا میں قوت رکھتے ہوں اور جاہ ومال کے مالک ہوں اور مقتدر اعلیٰ ہوں ، لیکن جس جگہ انہوں نے جانا ہے ، اس کی انہیں کوئی فکر نہیں ہے۔

فلایغررک تقلبھم فی البلاد (4 ہ : 4) ” اس کے بعد دنیا کے ملکوں میں ان کی چلت پھرت تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے “۔ وہ جس قدر دوڑ دھوپ کریں ، جس قدر اقتدار اور مال وجاہ کے وہ مالک ہوں ، جس قدر وہ عیش و عشرت میں ہوں ، آخر کار یہ لوگ تباہ برباد اور ہلاک ہونے والے ہیں۔ ان کی اس جنگ کا انجام معروف ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اس عظیم خالق کائنات کے درمیان اور اس کائنات کے درمیان اور اس کائنات کی ایک حقیر چیونٹی کے درمیان کوئی معرکہ برپا ہوسکتا ہے۔

ان سے پہلے ان جیسی کئی اقوام اس زمین پر گزری ہیں ، ان کا جو انجام ہوا ، اس سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ ایسی اقوام کا انجام کیا ہوا کرتا ہے ، جو اللہ کی قوت کے مقابلے میں آجائیں ۔ اللہ کی قوت ان کو پیش کر رکھ دیا کرتی ہے اور ہر اس قوت کو پیس ڈالتی ہے جو اللہ کے ساتھ جنگ کے لیے اٹھتی ہے۔

کذبت قبلھم۔۔۔۔۔ کان عقاب (40: 5) ” ان سے پہلے نوح کی قوم بھی جھٹلاچ کی ہے اور ان کے بعد بہت سے دوسرے جتھوں نے بھی یہ کام کیا۔ ہر قوم اپنے رسول پر جھپٹی تاکہ اسے گرفتار کرے۔ ان سب نے باطل کے ہتھیاروں سے حق کو نیچا دکھانے کی کوشش کی مگر آخر کار میں نے ان کو پکڑلیا۔ پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی تھی “۔ یہ سلسلہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے سے چلا آرہا ہے اور یہ ایک ایسا معرکہ ہے جو ہر زمان ومکان میں برپا ہے ، اور یہ آیت اس قصے کا خلاصہ بتاتی ہے۔ رسولوں اور

انکی تکذیب کا قصہ۔ اور ان کے اور اللہ کے مقابلے میں سرکشی کا رویہ ہر زمان ومکان میں یونہی ہوتا رہا ہے اور انجام بھی ایک رہا ہے

رسول آیا ہے ، اس کی قوم کے سرکشوں نے اس کی تکذیب کی ہے۔ انہوں نے دلیل کا جواب دلیل سے نہیں دیا ، بلکہ دلیل کے مقابلے میں تشدد کے ہتھیار لے کر آئے اور انہوں نے رسول کو پکڑ کر گرفتار کرنے کی کوشش کی اور جمہور عوام کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کی کوشش کی تاکہ حق کا مقابلہ کریں ، حق کو نیچا دکھائیں مگر اللہ کی قوت جبارہ نے مداخلت کی ہے۔ اور ایسے سرکشوں کو اس طرح چوٹی سے پکڑا کہ وہ آنے والوں کے لیے عبرت بن گئے۔

فکیف کان عقاب (40: 5) ” میری سزا کیسی سخت تھی “۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی سزا تباہ کن تھی ، بہت سخت تھی۔ ان اقوام کے جو آثار بھی آج باقی ہیں ، وہ بتاتے ہیں کہ یہ سزا بہت سخت تھی۔ اور احادیث وروایات بھی یہ بتاتی ہیں کہ وہ سزا بہت سخت تھی۔ اور یہ معرکہ یہاں ختم نہیں ہوگیا بلکہ قیامت تک چلا گیا :

وکذٰلک۔۔۔۔ النار (40: 6) ” اسی طرح تیرے رب کا یہ فیصلہ بھی ان سب لوگوں پر چسپاں ہوچکا ہے جو کفر کے مرتکب ہوئے ہیں کہ وہ واصل بجہنم ہونیوالے ہیں “۔ جب یہ اللہ کا فیصلہ حق ہوا ، چسپاں ہوا ، گویا نافذ ہوگیا ، اور ہر قسم کا مباحثہ ہی ختم ہوگیا

یوں قرآن کریم ایک حقیقی صورت حال کی تصویر کشی کرتا ہے۔ ایمان اور کفر کے طویل معرکہ کی تصویر کشی۔ حق اور باطل کے درمیان معرکہ آرائی ، ان لوگوں کے درمیان جو اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور ان لوگوں کے درمیان معرکہ آرائی جو زمین میں سرکشی اختیار کرتے ہیں ، بغیر دلیل کے بات کرتے ہیں۔ یوں قرآن یہ بتاتا ہے کہ یہ معرکہ حق و باطل آغاز انسانیت سے شروع ہے اور اس کا میدان زمین سے بھی آگے ہے۔ اس پوری کائنات میں بھی یہ جاری ہے کہ یہ پوری کائنات اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کیے ہوئے ہے لیکن ایک کافرنہ صرف اہل ایمان سے بلکہ پوری کائنات کے ساتھ بھی برسرپیکار ہوتا ہے۔ یہ اس کائنات کے اندر موجود اللہ کی نشانیوں سے بھی لڑتا ہے اور اس معرکہ آرائی کا انجام بھی معلوم ہوتا ہے کہ حق کی قوتیں ، بہت بڑی ، بہت طاقتور ہیں۔ اللہ ہے ، پوری کائنات ہے ، اہل ایمان ہیں اور اس کے مقابلے کی قلیل و حقیر قوت ہے۔ اگرچہ عارضی طور پر اس کا پلہ بھاری ہوا اور بظاہر یہ قوت بہت ہی خوفناک نظر آئی ہو مگر آخر کار یہ تباہ ہونے والی ہے۔

یہ حقیقت کہ حق و باطل کا معرکہ اور اس میں لڑنے والی قوتیں اور اس کا میدان جنگ یعنی طویل انسانی تاریخ ، اس کی تصویر کشی قرآن اس لیے کرتا ہے کہ اہل ایمان کے دلوں میں یہ بات اچھی طرح بیٹھ جائے ، خصوصاً ان اہل ایمان کے دلوں میں جو پیغمبروں کے اصول ومنہاج پر دعوت حق لے کر آئے ہیں اور ہر زمان ومکان میں دعوت ایمان دیتے ہیں وہ اچھی طرح جان لیں اور یقین کرلیں کہ باطل کی قوت کچھ بھی نہیں ہے۔ اگرچہ وہ بظاہر پھولی ہوئی نظر آئے ، ایک محدود وقت کے لیے کسی محدود سرزمین میں ، یہ قوت حقیقت نہیں ہے۔ اصل حقیقت وہ ہے ، جس کی نشاندہی اللہ کی کتاب کررہی ہے ، جسے وہ کلمتہ الحق کہتی ہے ،

اور حق غالب ہوا کرتا ہے۔ اللہ سب سے سچا ہے اور اس کی بات سچی ہے۔

اس حقیقت کے ساتھ ساتھ کہ دعوت حق ہے اور اس کے حامل مومنین ہیں۔ ان کے ساتھ وہ مومنین بھی شامل ہیں ، جو

اللہ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے اردگرد متعین وہ بھی اہل ایمان کے ساتھ تائید میں کھڑے ہیں۔ وہ ہر وقت انسان مومنین کی رپورٹ اللہ کے ہاں پیش کرتے ہیں ، ان کے لیے مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں اور ان کے لیے جو اللہ کا وعدہ ہے ، اللہ سے اس کے پورا کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ کیوں ؟ اس لیے کہ یہ انسان بھی مومن ہیں اور وہ مومن ہیں۔