Anda sedang membaca tafsir untuk kumpulan ayat dari 28:68 hingga 28:70
وَرَبُّكَ
یَخْلُقُ
مَا
یَشَآءُ
وَیَخْتَارُ ؕ
مَا
كَانَ
لَهُمُ
الْخِیَرَةُ ؕ
سُبْحٰنَ
اللّٰهِ
وَتَعٰلٰی
عَمَّا
یُشْرِكُوْنَ
۟
وَرَبُّكَ
یَعْلَمُ
مَا
تُكِنُّ
صُدُوْرُهُمْ
وَمَا
یُعْلِنُوْنَ
۟
وَهُوَ
اللّٰهُ
لَاۤ
اِلٰهَ
اِلَّا
هُوَ ؕ
لَهُ
الْحَمْدُ
فِی
الْاُوْلٰی
وَالْاٰخِرَةِ ؗ
وَلَهُ
الْحُكْمُ
وَاِلَیْهِ
تُرْجَعُوْنَ
۟
3

اب ہر امر اور ہر چیز کو نتیجہ ارادہ الٰہی قرار دیا جاتا ہے ، کیونکہ وہی ذات ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا۔ وہ ہر چیز کو جانتا ہے اور تمام معاملات اسی کی طرف لوٹتے ہیں۔ اول میں بھی آخر میں بھی۔ دنیا میں بھی وہی قابل تعریف ہے اور آخرت میں بھی وہی قابل تعریف ہے۔ دنیا میں بھی اس کا حکم چلتا ہے اور آخرت بھی اسی کی طرف لوٹنا ہے ۔ لوگوں کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنے لیے خود کوئی فیصلہ کرسکیں نہ دوسروں کے بارے میں یہاں کوئی انسان کوئی فیصلہ کرسکتا ہے۔ اللہ جو چاہتا ہے ، تخلیق کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ، اختیار کرلیتا ہے۔

وربک یخلق ۔۔۔۔۔۔ والیہ ترجعون (68: 70)

” ۔ ۔ “۔

یہ تبصرہ ان لوگوں کے اس ریمارکس کے بعد آیا ہے کہ اگر ہم نے ہدایت کو قبول کرلیا تو ہم اپنی زمین سے اچک لے جائیں

گے۔ اسی قول کے بعد یوم الحساب کا ایک منظر پیش کیا گیا اور اس میں مشرکین کے موقف کو پیش کیا گیا۔ اب اس دوسرے تبصرے میں یہ کہا گیا ہے کہ ان لوگوں کا اختیار تو خود ان کے نفوس کے بارے میں بھی نہیں ہے کہ وہ ازخود امن اور خوف کا کوئی راستہ اپنے لیے اختیار کریں۔ اس لیے اللہ کی وحدانیت کے اختیارات کی وجہ سے آخر کار تمام امور میں اللہ ہی موثر ہے۔

وربک یخلق ما یشآء ویختار ما کان لھم الخیرۃ (28: 68) ” اور تیرا رب پیدا کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے اور منتخب کرلیتا ہے اور یہ انتخاب ان لوگوں کے کرنے کا کام نہیں ہے “۔ یہ وہ عظیم حقیقت ہے جسے بسا اوقات لوگ بھال دیتے ہیں یا اس کے بعض پہلوؤں کو لوگ بھلا دیتے ہیں کہ اللہ جو چاہتا ہے ، پیدا کرتا ہے۔ کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اللہ کے کاموں کے سلسلے میں کچھ تجاویز دے یا اللہ کی تخلیق میں ۔۔۔۔ اضافہ کرے یا اس کی تخلیق میں تغیر و تبدل کرے۔ وہ اپنی مخلوق میں سے مختلف چیزوں کو مختلف فرائض کے لیے اختیار کرلیتا ہے۔ مختلف مقامات میں مختلف چیزیں اپنا فریضہ ادا کرتی ہیں۔ اس لیے کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ اللہ کے سامنے کسی شخص کو تجویز کرے ، کسی حادثہ کی تجویز کرے ، کسی حرکت ، کسی بات اور کسی فعل کی تجویز کرے۔ اور نہ ایسا کام اختیار کرنے کا اللہ نے کسی کو اختیار دیا ہے۔ نہ اپنے نفسوں کے بارے میں اور نہ دوسروں کے بارے میں۔ غرض تمام امور کے فیصلے اللہ کرتا ہے ، چھوٹے ہوں یا بڑے۔

اگر لوگوں کے دل و دماغ میں صرف یہ ایک حقیقت بیٹھ جائے تو لوگوں پر جو مصائب آتے ہیں وہ ان کی وجہ سے ہرگز پریشان نہ ہوں ، یا ان کی اپنی وجہ سے ان کو جو تکلیف پہنچتی ہے اس کی وجہ سے بھی وہ پریشان نہ ہوں ، نہ وہ اس چیز کی وجہ سے پریشان ہوں جو ان کے ہاتھوں سے نکل گئی یا وہ محروم ہوگئے کیونکہ جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ ہی ہے جو واقعات کا انتخاب کرتا ہے اور اس کو اختیارات ہیں۔

لیکن اس کا مفہوم یہ بھی نہیں ہے کہ لوگ اپنی عقل کو معطل کردیں ، اداروں کو موقوف کردیں اور سرگرمیاں چھوڑ کر ٹھنڈے ہوکر بیٹھ جائیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان غوروفکر کرکے ، اچھی سوچ کے بعد پوری جدوجہد کرے اور اپنی پوری قوت استعمال کرتے ہوئے ایک کام کرے اور اس کے بعد جو نتائج ہوں ، ان کو اللہ پر چھوڑ دے۔ نتائج کو تسلیم ورضا سے قبول کرے۔ کیونکہ اس کے دائرہ قوت میں جو کچھ تھا ، اس نے کرلیا۔ اس کے بعد کے امور اللہ کے لیے ہیں۔

مشرکین اللہ کے ساتھ خود ساختہ الہوں کو بھی شریک کرتے تھے۔ اور ان کو بھی پکارتے تھے۔ حالانکہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اور وہی اختیار و انتخاب کرتا ہے۔ اس تخلیق میں کوئی شریک نہیں اور نہ اس کے اختیارات میں کوئی شریک ہے۔

سبحن اللہ و تعلی عما یشرکون (28: 68) ” اللہ پاک ہے ، اور بہت بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں “۔

وربک یعلم ۔۔۔۔۔۔ وما یعلنون (28: 69) ” اور تیرا رب جانتا ہے جو کچھ یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں “۔ اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں “۔ اس لیے وہ ان کی جن باتوں کو جانتا ہے ، ان پر ان کو سزا دیتا ہے۔ ان کے لیے نتائج وہ منتخب کرتے

ہیں ان کے لیے ہدایت و ضلالت کا فیصلہ بھی وہی کرتا ہے۔

وھو اللہ لا الہ الا ھو (28: 70) “ وہ ایک اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے۔ لہٰذا خلق میں یا اختیارات میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔

لہ الحمد فی الاولی والاخرۃ (28: 70) ” اس کے لیے حمد ہے ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی “۔ اس بات پر کہ وہ کسی کے لیے کیا انجام اختیار کرتا ہے ، کسی کے لئے کیا انعامات تجویز کرتا ہے ، کسی کے لیے کیا حکمت و تدبیر اختیار کرتا ہے ، کسی کے ساتھ کیا انصاف کرتا ہے اور کسی پر کیا رحمت کرتا ہے ۔ حمد و ثنا صرف اسی کے لیے ہے۔

ولہ الحکم (28: 70) ” حکم اس کا ہے “۔ اس لیے وہ اپنے بندوں کے درمان جو فیصلے چاہتا ہے ، کرتا ہے اس کے کسی امر کو کوئی بدلنے والا نہیں ہے۔ اور نہ اس کے فیصلوں کو کوئی بدل سکتا ہے۔

والیہ ترجعون (28: 70) ” اور اس کی طرف تم سب پلٹ کر جانے والے ہو “۔ اور آخری فیصلہ بھی وہاں اللہ ہی اپنے پورے اختیارات کے ساتھ کرے گا۔

یوں اللہ تعالیٰ یہ شعور اہل ایمان کے گلے میں تعویذ کی طرح باندھ دیتا ہے کہ اس کائنات میں صرف اللہ کا ارادہ چلتا ہے۔ اور یہ بھی سمجھا دیتا ہے کہ اللہ رازوں کو بھی جانتا ہے ، اس سے کوئی چیز خفیہ نہیں ہے۔ سب نے اس کی طرف لوٹنا ہے۔ اس سے کوئی شخص بچ کر نہیں نکل سکتا۔ کس طرح یہ لوگ اللہ کے ساتھ شرک کی جرات کرتے ہیں حالانکہ یہ لوگ اس کے قبضے میں ہیں۔ اس سے نکل نہیں سکتے۔

اس کے بعد ایک سفر اس پوری کائنات کا بھی کرایا جاتا ہے جس میں یہ لوگ رہتے ہیں لیکن اس کے اندر اللہ کی جو گہری تدبیر و حکمت کام کر رہی ہے اس سے غافل ہیں۔ حالانکہ ان کی زندگی اور ان کی معیشت کے تمام فیصلے اللہ کے اختیار میں ہیں۔ اس طرح اللہ ان کے شعور کو اس کائنات کے دو بہت اہم مظاہر کی طرف متوجہ کرتا ہے یعنی گردش لیل و نہار کی طرف۔ اور اس امر کی طرف کہ گردش لیل و نہار کے اس نظام کے اندر اللہ وحدہ کی وحدانیت اور اس کے اختیار مطلق کے کیسے شواہد ہیں۔