Vous lisez un tafsir pour le groupe de versets 41:30 à 41:32
اِنَّ
الَّذِیْنَ
قَالُوْا
رَبُّنَا
اللّٰهُ
ثُمَّ
اسْتَقَامُوْا
تَتَنَزَّلُ
عَلَیْهِمُ
الْمَلٰٓىِٕكَةُ
اَلَّا
تَخَافُوْا
وَلَا
تَحْزَنُوْا
وَاَبْشِرُوْا
بِالْجَنَّةِ
الَّتِیْ
كُنْتُمْ
تُوْعَدُوْنَ
۟
نَحْنُ
اَوْلِیٰٓؤُكُمْ
فِی
الْحَیٰوةِ
الدُّنْیَا
وَفِی
الْاٰخِرَةِ ۚ
وَلَكُمْ
فِیْهَا
مَا
تَشْتَهِیْۤ
اَنْفُسُكُمْ
وَلَكُمْ
فِیْهَا
مَا
تَدَّعُوْنَ
۟ؕ
نُزُلًا
مِّنْ
غَفُوْرٍ
رَّحِیْمٍ
۟۠
3

یعنی اللہ کو اپنا رب کہہ کر ، استقامت کے یہ معنی ہیں کہ اس اقرار کے تقاضے پورے کئے جائیں جس طرح ان کا حق ہے۔ ضمیر میں شعور طور پر یہ عقیدہ بیٹھا ہوا ہو ، زندگی اور عمل میں اس پر گامزن ہو ، اس راہ میں اگر تکالیف آئیں تو ان کو برداشت کرے۔ اس معنے میں یہ دراصل بہت بڑا حکم ہے اور بھاری ذمہ داری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے ہاں پھر اس کا بہت بڑا اجر ہے کہ ملائکہ ان پر نازل ہوں گے اور ان کے ہمدم ہوں گے۔ ان کے دوست ہوں گے اور وہ جو باتیں کریں گے اللہ نے ان فرشتوں کی زبانی ان کو نقل کیا ہے۔

الا تخافوا (41 : 30) ” نہ ڈرو “ ولا تحزنوا (41 : 30) ” نہ غم کرو “۔ اور اس جنت کے لیے خوش ہوجاؤ۔ بشارت ہے تم کو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھ ہیں اور آخرت میں بھی۔ اس کے بعد یہ فرشتے پھر ان کے سامنے اس جنت کی تصویر کھینچتے ہیں جو انہیں ملنے والی ہے کہ ” وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے ، تمہاری ہوگی “۔۔۔۔ پھر وہ مزید حسن و جمال اور عزت و استقبال کا ذکر کرتے ہیں : ” یہ ہے سامان ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفور و رحیم ہے “ ۔ یعنی یہ اللہ نے تمہاری ضیافت اور مہمانی کے لئے تیار کیا ہے۔ اب ان نعمتوں کے بعد اور کیا رہ جاتا ہے۔