وَاَصْبَحَ
الَّذِیْنَ
تَمَنَّوْا
مَكَانَهٗ
بِالْاَمْسِ
یَقُوْلُوْنَ
وَیْكَاَنَّ
اللّٰهَ
یَبْسُطُ
الرِّزْقَ
لِمَنْ
یَّشَآءُ
مِنْ
عِبَادِهٖ
وَیَقْدِرُ ۚ
لَوْلَاۤ
اَنْ
مَّنَّ
اللّٰهُ
عَلَیْنَا
لَخَسَفَ
بِنَا ؕ
وَیْكَاَنَّهٗ
لَا
یُفْلِحُ
الْكٰفِرُوْنَ
۟۠
3

واصبح الذین تمترا مکانہ ۔۔۔۔۔۔ لا یفلح الکفرون (82)

اب یہ لوگ اس بات پر اللہ کی حمد و ثنا کر رہے ہیں کہ اللہ نے ان کی دعا قبول نہ کی۔ اور ان کو وہ دولت نہ دی جس کی وہ تمنا کرتے تھے اور جو دولت قارون کو دی گئی وہ ان کو نہ دی گئی۔ ورنہ ان کی حالت بھی وہ ہوجاتی جو چوبیس گھنٹوں میں قارون کی ہوگئی۔ ان کو اب ہوش آیا کہ دولت اس بات کی علامت اور دلیل نہیں ہے کہ دولت مند پر اللہ کا فضل ہے اور اللہ اس سے راضی ہے بلکہ اللہ اپنے بندوں میں سے کسی کو کم رزق دیتا ہے اور کسی کو زیادہ دیتا ہے یہ اس لیے نہیں ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے یا ناراض ہے۔ رزق کی فراہمی کے اسباب اور ہیں۔ اگر وافر رزق اللہ کی رضا مندی کی دلیل ہوتا تو قارون اللہ کی اس شدید گرفت اور پکڑ میں نہ آتا ایسے ضعیف الاعتقاد لوگوں کو اب معلوم ہوا کہ کافر کبھی فلاح نہیں پاتے۔ قارون کے بارے میں قرآن نے کلمہ کفر نقل نہیں کیا گیا۔ البتہ مال و دولت پر غرور کرنا اور یہ سوچ رکھنا کہ یہ دولت اس نے خود اپنے علم و حکمت کے زور سے کمائی ہے ، یہ بھی ایک قسم کا کفر ہے اور اس کا انجام ایس اہوا جو کافرون کا ہوتا ہے یعنی مکمل تباہی اور ہلاکت۔