Vous lisez un tafsir pour le groupe de versets 12:67 à 12:68
وَقَالَ
یٰبَنِیَّ
لَا
تَدْخُلُوْا
مِنْ
بَابٍ
وَّاحِدٍ
وَّادْخُلُوْا
مِنْ
اَبْوَابٍ
مُّتَفَرِّقَةٍ ؕ
وَمَاۤ
اُغْنِیْ
عَنْكُمْ
مِّنَ
اللّٰهِ
مِنْ
شَیْءٍ ؕ
اِنِ
الْحُكْمُ
اِلَّا
لِلّٰهِ ؕ
عَلَیْهِ
تَوَكَّلْتُ ۚ
وَعَلَیْهِ
فَلْیَتَوَكَّلِ
الْمُتَوَكِّلُوْنَ
۟
وَلَمَّا
دَخَلُوْا
مِنْ
حَیْثُ
اَمَرَهُمْ
اَبُوْهُمْ ؕ
مَا
كَانَ
یُغْنِیْ
عَنْهُمْ
مِّنَ
اللّٰهِ
مِنْ
شَیْءٍ
اِلَّا
حَاجَةً
فِیْ
نَفْسِ
یَعْقُوْبَ
قَضٰىهَا ؕ
وَاِنَّهٗ
لَذُوْ
عِلْمٍ
لِّمَا
عَلَّمْنٰهُ
وَلٰكِنَّ
اَكْثَرَ
النَّاسِ
لَا
یَعْلَمُوْنَ
۟۠
3

مصر کا قدیم دار السلطنت ایک ایسا شہر تھا جس کے چاروں طرف اونچی فصیل تھی اور مختلف سمتوں میں داخلہ کے لیے دروازے بنے ہوئے تھے۔ حضرت یعقوب کا اپنے بیٹوں سے یہ کہنا کہ تم لوگ اكٹھا ہو کر ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہو بلکہ متفرق دروازوں سے داخل ہو، اس اندیشہ کی بنا پر تھا کہ ان کے دشمن انھیں ہلاک کرنے کی کوشش نہ کریں )قيل إنه أحب أن لا يفطن بهم أعداؤهم فيحتالوا لإهلاكهم) تفسیر النسفی، جلد2، صفحہ 124 ۔

اس اندیشہ کا معاملہ اسی سورہ کی آیت نمبر 73 سے واضح ہے جس میں برادرانِ یوسف اپنی برأت ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ہم یہاں فساد کے لیے یا چوری کے لیے نہیں آئے ہیں۔ برادران ِیوسف مصر میں باہر سے آئے تھے۔ ان کے لباس مقامی لوگوں کے لباس سے مختلف تھے۔ وہ اپنے حلیہ سے یقیناًمصر والوں کو اجنبی دکھائی دیتے ہوں گے۔ ایسے گیارہ آدمیوں کا ایک ساتھ شہر میں داخل ہونا انھیں لوگوں کی نظر میں مشتبہ بنا سکتا تھا۔ اس لیے مقامی لوگوں سے کسی غیر ضروری ٹکراؤ سے بچنے کے لیے انھوں نے ان کو یہ ہدایت کی کہ شہر میں داخل ہو تو ایک ساتھ جـتھے کی صورت میں داخل نہ ہو۔

مومن کی نظر ایک طرف خدا کی قدرت کاملہ پر ہوتی ہے۔ وہ دیکھتاہے کہ اس کائنات میں خدا کے سوا کسی کوکوئی اختیار حاصل نہیں۔ اسی کے ساتھ وہ جانتا ہے کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ یہاں امتحان کی مصلحت سے خدا نے ہر معاملہ کو ظاہری اسباب کے ماتحت کررکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت یعقوب نے ایک طرف اپنے بیٹوں کو دنیوی تدبیر اختیار کرنے کی تلقین فرمائی۔ دوسری طرف یہ بھی فرمادیا کہ جو کچھ ہوگا خدا کے حکم سے ہوگا کیوں کہ یہاں خدا کے سوا کسی کو کوئی طاقت حاصل نہیں۔