اِذَا
الشَّمْسُ
كُوِّرَتْ
۟
۳

یہ ایک منظر ہے جس میں اس پوری کائنات میں مکمل انقلاب کے نظارے کی عکاسی کی گئی ہے۔ تمام موجودات کے اندر انقلاب برپا ہے ، یہ انقلاب اجرام سماوی اور اس کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں۔ وحشی جانور اور خانگی جانور بھی اس سے متاثر ہیں ، نفس انسانی اور اس کی حرکات بدل چکی ہیں ، ہر نامعلوم حقیقت آنکھوں کے سامنے ہے اور ہر راز طشت ازبام ہوچکا ہے۔ اور انسان اپنی کمائی اور اپنے اس زادراہ کے سامنے کھڑا ہے اور حساب و کتاب شروع ہے اور حیران وپریشان ہے کہ اس کے ارد گرد ہر چیز اس عظیم طوفان کی زد میں آچکی ہے ، اور کائنات کا تمام نظام اتھل پتھل ہوچکا ہے۔

یہ عظیم کائناتی واقعات اس طرف اشارہ کررہے ہیں کہ یہ حسین و جمیل اور یہ عظیم کائنات اور اس کا نظام ، جس کی تمام حرکات موزوں اور مرتب ہیں ، جس کی شاخت نہایت ہی مستحکم ہے۔ اور جس کے اندر قائم کشش نہایت موزوں ہے اور جسے نہایت علیم و حکیم ہاتھوں نے بنایا ہے ، یہ پوری کائنات بکھر بکھر جائے گی ، اس کے اس مستحکم نظام کی بندش کھل جائے گی۔ جن قوتوں اور جن صفات کی وجہ سے یہ اس طرح چل رہی ہے ، یہ سب جاتی رہیں گی ، غرض یہ پورا موجودہ نظام درہم برہم ہوجائے گا اور پھر یہ کائنات اور اس کی مخلوقات ایک نئی زندگی پائیں گے۔ یہ نئی کائنات اور یہ نئی زندگی موجودہ خصوصیات سے مختلف ہوگی۔

یہی تصور ہے جو یہ سورت قلب ونظر میں بٹھانا چاہتی ہے تاکہ انسان سوچ لے اور انسانی شعور ان ظاہری اور عارضی مناظر سے ہٹ جائے۔ اگرچہ بادی النظر میں یہ بہت ہی مضبوط نظر آئیں اور ان حقائق کو اپنے اندر سمولے جو باقی رہنے والے ہیں۔ انسان اس ذات باری کات صور کرے جو باقی اور لازوال ہے اور وہ ذات اس وقت بھی باقی ہوگی جبکہ یہ پوری کائنات زائل ہوجائے گی اور عظیم حوادث اس کی شکل ہی بدل دیں گے۔ اس سورت کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس ظاہری اور عادی اور صرف نظر آنے والی کائنات کے دائرے سے نکل کر اس مطلق حقیقت اور ذات باری کے ساتھ جڑ جائے جو زمان ومکاں سے وراء ہے جو انسانی احساس اور تصور سے آگے ہے ، جو کسی دائرے اور حد کے اندر محدود نہیں ہے۔

یہ ہے وہ حقیقی شعور جو ہمارے اندر پیدا ہوتا ہے۔ جب انسان ان عظیم انقلابی مناظر کو اس سورت میں دیکھتا ہے۔ اس مشاہدے سے گویا انسان پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے اور اللہ کی عظمت کا شعور ذہن میں بیٹھ جاتا ہے۔

لیکن عملاً کیا ہوگا ؟ تو اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ ہمارا شعور اور ہمارا تصور بہت محدود ہے۔ آج ہم ان عظیم انقلابات کا پور اتصور نہیں کرسکتے۔ ہم زیادہ سے زیادہ یہ سوچ سکتے ہیں کہ اس زمین پر ایک عظیم زلزلہ برپا ہوگا۔ اور یہ زلزلہ ہر طرف تباہی مچا دے گا اور زمین کے اندر سے ایک ایسا ناقابل کنٹرول آتش فشانی کا عمل ہوگا اور زمین کے اوپر سیارے اور ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گریں گے اور سمندروں کا پانی طوفانی شکل اختیار کرلے گا اور یہ کو سورج کے اندر بھی آتش فشانی کا عمل ہوگا اور اس کے شعلے لاکھوں میلوں تک اٹھیں گے اور یہ مشاہدات انسان دیکھ بھی سکے گا۔

لیکن قیامت کے برپا ہونے کے وقت جو کائناتی انقلابات ہوں گے ، ہماری یہ سوچ یہ باتیں اور یہ مشاہدات ان کے مقابلے میں طفل تسلیاں ہیں۔ اگر ہمارے لئے ان کا سمجھنا ضروری ہے تو ہم صرف ایسی عبارات میں لاسکتے جو ان واقعات کا مجمل سا تصور پیش کریں کیونکہ اس کے سوا ہم اور کچھ بھی نہیں کرسکتے۔

اذا الشمس کورت (1:81) ” جب سورج لپیٹ دیا جائے گا “۔ اس کا مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ٹھنڈا ہوجائے گا اور اس کے اندر برپا اشتعال ختم ہوجائے گا۔ اس وقت سورج کے اندر جلن کا عمل شروع ہے اور اس سے جو شعلے اٹھ رہے ہیں ، وہ اس کے اردگرہزاروں میل تک بلند ہوتے ہیں۔ جب سورج گرہن ہوتا ہے تو اس وقت رصدگاہوں سے یہ عمل صاف نظر آتا ہے۔ اس کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ سورج کے اس جلنے کے عمل سے سورج پر موجود تمام مواد ایک اڑتے ہوئے گیس کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور یہ گیس جلتی ہوئی سورج کی فضا میں بلند ہوتی ہے۔ یہ حالت اس طرح نہ رہے گی اور سورج اسی طرح ٹھنڈا ہوجائے گا۔ جس طرح ہماری یہ زمین ٹھنڈی ہوگئی ہے اور اس کے اوپر کوئی التہابی عمل نہیں ہے۔ اس کے سوا سورت کا اور مفہوم بھی ہوسکتا ہے جو ابھی تک ہمارے علم میں نہیں ہے۔ یہ عوامل کس طرح وجود میں آئیں گے ، ان کا علم اللہ ہی کو ہے۔