قُلْ
اِنِّیْ
نُهِیْتُ
اَنْ
اَعْبُدَ
الَّذِیْنَ
تَدْعُوْنَ
مِنْ
دُوْنِ
اللّٰهِ ؕ
قُلْ
لَّاۤ
اَتَّبِعُ
اَهْوَآءَكُمْ ۙ
قَدْ
ضَلَلْتُ
اِذًا
وَّمَاۤ
اَنَا
مِنَ
الْمُهْتَدِیْنَ
۟
۳

(آیت) ” نمبر 56 تا 58۔

یہ لہر ہدایت اور اشارات سے بھری پڑی ہے ۔ اس میں قلب انسانی پر اثر انداز ہونے والے مختلف عوامل کے ذریعے حقیقت الوہیت کو نظروں کے سامنے لایا گیا ہے ۔ ان مؤثرات اور ضربات میں سے اہم اور گہرا موثر اس میں لفظ قل کا تکرار ہے ‘ کہہ دو ‘ کہہ دو ‘ کہہ دو ‘ اس میں خطاب رسول اللہ ﷺ کو کیا گیا ہے کہ آپ اپنے رب کی طرف سے آنے والے ہر پیغام کو پہنچا دیں ۔ یہ وہ پیغام ہے جو کسی اور گروہ کے پاس نہیں ہے ‘ کوئی اور اس پیغام کا حامل نہیں ہے ۔ اور نہ یہ پیغام کسی اور پر القا ہوتا ہے ۔

(آیت) ” قُلْ إِنِّیْ نُہِیْتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّہِ قُل لاَّ أَتَّبِعُ أَہْوَاء کُمْ قَدْ ضَلَلْتُ إِذاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُہْتَدِیْنَ (56)

” اے نبی ﷺ ان سے کہو ” تم لوگ اللہ کے سوا جن دوسروں کو پکارتے ہو ان کی بندگی کرنے سے مجھے منع کیا گیا ہے ۔ “ کہو : ” میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کروں گا ‘ اگر میں نے ایسا کیا تو گمراہ ہوگیا ‘ راہ راست پانے والوں میں سے نہ رہا ۔ “

حضور ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ اعلان فرما دیں کہ آپ کو ان لوگوں کی بندگی کرنے اور انکی پیروی کرنے سے خدا نے منع کردیا ہے جن کی بندگی اور پیروی تم مشرکین کرتے ہو ۔ میں تمہارے معبودوں کو کسی صورت میں اپنے رب کا ہمسر نہیں بنا سکتا ۔ اس لئے کہ مجھے اس بات سے روک دیا گیا کہ میں لوگوں کی خواہشات کی پیروی کروں اور جو لوگ اللہ کے سوا دوسروں کی بندگی کرتے ہیں وہ محض اپنی خواہشات نفس کی وجہ سے ان لوگوں کی پیروی کرتے ہیں اور انہیں اللہ کا ہمسر بناتے ہیں ۔ وہ کسی علم یا دلیل کی وجہ سے ایسا نہیں کر رہے ۔ اور نہ اس وجہ سے کر رہے ہیں کہ انکے نزدیک یہ کوئی حق بات ہے ۔ نیز یہ کہ اگر میں ان لوگوں کی پیروی کروں تو میں گمراہ ہوجاؤں گا اور ہدایت یافتہ نہ رہوں گا کیونکہ جن لوگوں پر ان کی خواہشات مسلط ہوتی ہیں وہ لازما گمراہی کا شکار ہوتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ حضرت نبی کریم ﷺ کو یہ حکم دیتے ہیں کہ آپ مشرکین کے ساتھ اس انداز میں ہمکلام ہوں ۔ ان کے ساتھ اس انداز میں دو ٹوک بات کریں ۔ اس سورة میں اس سے پہلے بھی حضور ﷺ کو حکم دیا جا چکا ہے ۔

(آیت) ” أَئِنَّکُمْ لَتَشْہَدُونَ أَنَّ مَعَ اللّہِ آلِہَۃً أُخْرَی قُل لاَّ أَشْہَدُ قُلْ إِنَّمَا ہُوَ إِلَـہٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِیْ بَرِیْء ٌ مِّمَّا تُشْرِکُونَ (19) ۔

” کیا تم لوگ واقعی یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسراخدا بھی ہے ؟ کہو میں تو اس کی شہادت ہر گز نہیں دے سکتا ۔ خدا تو وہی ایک ہے اور میں اس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو۔ “

مشرکین مکہ حضور ﷺ کو یہ پیشکش کرتے رہے تھے کہ آپ انکے دین کو مان لیں اور وہ آپ کے دین کو تسلیم کریں گے ۔ آپ ان کے خداؤں کے سامنے سجدہ ریز ہوں اور وہ آپ کے الہ واحد کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں گے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ شاید اس قسم کی مصالحت مسالت کا امکان ہے اور یہ کہ ایک ہی دل میں شرک اور توحید جمع ہو سکتے ہیں ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ غیر اللہ کی بندگی اور پیروی کے ساتھ ساتھ اللہ کی بندگی اور پیروی بھی ممکن ہے حالانکہ یہ اجتماع ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ اللہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنے ساتھ دوسرے شریکوں کو تسلیم کرے ۔ وہ تو یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس کے بندے صرف اور صرف اس کی بندگی کریں ۔ اللہ کو وہ بندگی سرے سے قبول ہی نہیں ہے جس میں شرک کا کوئی شائبہ تک موجود ہو ‘ چاہے وہ تھوڑا ہو یا زیادہ ۔

آیت کا مقصد تو یہ ہے کہ حضور ﷺ ان سے یوں مخاطب ہوں کہ آپ ﷺ کو ان کی بندگی سے منع کردیا گیا ہے جن کی یہ لوگ بندگی کرتے ہیں یا جنہیں وہ الہ کہتے ہیں ۔ لیکن یہاں انداز تعبیر یوں ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے ” الذین “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو قابل غور ہے اس لئے کہ الذین کا لفظ ذوالعقول کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ اگر مراد صرف بتوں سے ہوتی یا دوسرے بےجان معبود مراد ہوتے تو یہاں لفظ (ما) استعمال ہوتا (الذین) استعمال نہ ہوتا ۔ لہذا یہاں بتوں اور دوسرے حجر وشجر سے کوئی اور مخلوق مراد ہے جنکے لئے لفظ الذین استعمال ہوا ہے ۔ ان معبودوں کے لئے الذین کی ضمیر استعمال بتاتا ہے کہ معبود ذوالعقول تھے ۔ اس تعبیر کی تائید دو باتوں سے ہوتی ہے ایک تو واقعی تاریخی حائق سے اور دوسری اسلامی اصطلاحات سے ۔

تاریخی واقعہ یہ ہے کہ مشرک صرف پتھر کے بتوں اور درختوں کی پوجا نہ کرتے تھے بلکہ ان کے ساتھ وہ جنوں ‘ فرشتوں اور انسانوں کو بھی پوجتے تھے ۔ انسانوں کی پوجا اس طرح کرتے تھے کہ وہ انسانوں کو قانون سازی اور افراد کے لئے راہنمائی کا حق دیتے تھے یہ انسان ان کے لئے رسم و رواج قوانین اور ضابطے بناتے تھے جن کے مطابق ان کے ہاں اجتماعی عمل ہوتا اور تنازعات کے فیصلے ہوتے ۔ ان انسانوں کی رائے اور دوسرے انسانوں کے رواج کے مطابق ۔

اب ہم اسلامی اصطلاحات کی طرف آتے ہیں۔ اسلام اسے شرک تصور کرتا ہے ۔ اسلام کا تصور یہ ہے کہ انسانوں کے امور زندگی میں کچھ دوسرے انسانوں کو حاکم بنانا اس طرح ہے جس طرح انہیں کوئی اپنا الہ بنا لے اور انہیں اللہ کا شریک اور ہمسر بنا دے ۔ اسلام میں اس حرکت سے اسی طرح منع کرتا ہے جس طرح اسلام بتوں اور پتھروں کی پوجا سے منع کرتا ہے ۔ یہ دونوں کام اسلام کے عرف میں برابر اور مساوی درجے کے منکرات ہیں ۔ یہ صریح شرک ہے اور اللہ کے ساتھ دوسروں کو ہمسر بنانا ہے ۔ اب پہلی چوٹ کے ساتھ متصلا دوسری چوٹ لگتی ہے ۔ یہ دوسری ضرب پہلی ضرب کی تکمیل ہے اور اس سے متصل ہے ۔