وَاَنْذِرْ
بِهِ
الَّذِیْنَ
یَخَافُوْنَ
اَنْ
یُّحْشَرُوْۤا
اِلٰی
رَبِّهِمْ
لَیْسَ
لَهُمْ
مِّنْ
دُوْنِهٖ
وَلِیٌّ
وَّلَا
شَفِیْعٌ
لَّعَلَّهُمْ
یَتَّقُوْنَ
۟
۳

(آیت) ” نمبر 51 تا 54۔

یہ اسلامی نظریہ حیات کی برتری اور عزت کی علامت ہے کہ اس میں اس دنیا کے عارضی کرو فر کو کوئی وقعت نہیں دی گئی ۔ اس میں پیش نظر اعلی اقدار ہوتی ہیں اور دنیا کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا ۔

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا کہ آپ اس دعوت کو صاف اور ستھرے انداز میں بغیر کسی بناوٹ کے اصل شکل میں پیش فرما دیں اور اس دعوت کے عوض میں لوگوں کو کسی دنیاوی غرض کا لالچ نہ دیں ۔ یہ حکم بھی دیا گیا کہ آپ صرف ان لوگوں ہی کو پیش نظر رکھیں جو اس دعوت سے کوئی دنیاوی فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے ہیں نہ آپ اس سے نفع لینا چاہتے ہیں ۔ اور اپنے اردگر دان لوگوں کو جمع کریں جو اس دعوت کو قبول کرتے ہیں اور مخلص ہیں ۔ جو لوگ دل وجان سے اللہ کی طرف متوجہ ہیں اور صرف رضائے الہی کے لئے کام کرنے والے ہیں ۔ آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ جاہلی معاشرے کے رسوم ورواجات اور جاہلی اقدار کو دعوت اسلامی کے نظام میں کوئی وزن نہ دیں اور دنیاوی اعتبارات اور علامات میں سے کسی علامت کو اہمیت دیں ۔

(آیت) ” وَأَنذِرْ بِہِ الَّذِیْنَ یَخَافُونَ أَن یُحْشَرُواْ إِلَی رَبِّہِمْ لَیْْسَ لَہُم مِّن دُونِہِ وَلِیٌّ وَلاَ شَفِیْعٌ لَّعَلَّہُمْ یَتَّقُونَ (51)

” اور اے نبی ﷺ تم اس (علم وحی) کے ذریعے سے ان لوگوں کو نصیحت کرو جو اس کا خوف رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے سامنے کبھی اس حال میں پیش کئے جائیں گے کہ اس کے سوا وہاں کوئی (ایسا ذی اقتدار) نہ ہوگا جو ان کا حامی و مددگار ہو یا ان کی سفارش کرے ‘ شاید کہ (اس نصیحت سے متنبہ ہو کر) وہ خدا ترسی کی روش اختیار کرلیں۔

یعنی دعوت اسلامی ان لوگوں کے سامنے سب سے پہلے پیش کی جائے جو لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن انہیں اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے ۔ وہاں ان کی حالت یہ ہوگی کہ نہ کوئی ولی ہوگا جو مدد کرسکے اور نہ کوئی سفارشی ہوگا جو چھڑا سکے ۔ اس لئے کہ قیامت کے دن اللہ کے ہاں ‘ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بھی سفارش نہیں کرسکتا ۔ اگر کسی کو سفارش کی اجازت بھی مل جائے تو بھی وہ ان لوگوں کے حق میں اللہ کی جناب میں سفارش نہ کرے گا ۔ کیونکہ سفارش کے منصف پر فائز ہونے والے لوگ تو خود اس دن خوف کا شدید شعور رکھتے ہوں گے کیونکہ اس دن کوئی اللہ کے سوا شفیع و مددگار نہ ہوگا ۔ اس لئے کہ ان خدا رسیدہ اور خدا سے ڈرنے والے لوگوں سے اس بات کی توقع زیادہ ہوگی ‘ وہ زیادہ خوف محسوس کریں گے اور زیادہ مطیع فرمان ہوں گے اور ہدایت الہی سے اور لوگوں کے مقابلے میں زیادہ نفع اندوز ہوں گے ۔ ایسے لوگوں سے زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی اس دنیاوی زندگی میں ایسے امور سے بچیں جن کی وجہ آخرت میں عذاب الہی میں مبتلا ہوں ۔ لہذا ڈراوا ایک ایسا بیان ہوتا ہے جو واضح ہوتا ہے اور اس کا بہت اثر ہوتا ہے ۔ یوں انذار کی وجہ سے ان پر وہ امور واضح ہوجائیں گے جن سے وہ پہلے ہی خائف ہیں ‘ لہذا ان امور کے بیان اور انذار کی وجہ سے وہ مزید متقی بنیں گے اور حدود باللہ پامال کرنے سے ڈریں گے اور ان امور میں مبتلا نہ ہوں گے جن سے منع کیا گیا ہے ۔ لیکن یہ اس کے بعد ہوگا جبکہ ان کے سامنے ممنوع باتوں کا بیان ہوجائے ۔

(آیت) ” وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّہُم بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُونَ وَجْہَہُ “ (6 : 52)

” اور جو لوگ اپنے رب کو رات دن پکارتے رہتے ہیں اور اس کی خوشنودی کی طلب میں لگے ہوئے ہیں انہیں اپنے سے دور نہ پھینکو ۔

جن لوگوں نے اپنے آپ کو اللہ کے لئے خالص کردیا ہے انہیں اپنے آپ سے دور نہ پھینکو۔ ایسے لوگ جو صبح وشام اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اسے پکارتے ہیں اور یہ کام وہ محض رضائے الہی کے لئے کرتے ہیں ۔ یہ خلوص اور محبت کا مقام ہے اور ادب اور احترام کی فضا ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہایت خضوع اور خشوع کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور عبادت میں مشغول ہیں ۔ رضائے الہی کا حصول صرف اس وقت ہوتا ہے جب انسان نہایت ہی خلوص کے ساتھ رب کی طرف متوجہ ہو ‘ پوری طرح اللہ کے ساتھ محبت کرتا ہو اور دربار الہی میں نہایت ادب اور خشوع کے ساتھ کھڑا ہوتا ہو یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے ربانی کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے یعنی للہ فی اللہ والے ۔

سوال یہ ہے کہ حضور ﷺ کو یہ حکم کیوں دیا گیا ؟ اصل بات کیا ہے ۔ واقعہ یوں ہوا کہ اشراف عرب میں سے بعض لوگ دعوت اسلامی کو اس لئے قبول نہ کرتے تھے کہ حضور اکرم ﷺ کے اردگرد فقراء اور کمزور لوگ جمع تھے ۔ مثلا صہیب ‘ بلال ‘ عمار ‘ خباب ‘ سلمان ‘ اور ابن مسعود ؓ اجمعین وغیرہ اور ان لوگوں نے ایسے جبے پہنے ہوئے ہوتے تھے جن سے بدبو آتی تھی ‘ کیونکہ غربت کی وجہ سے وہ بار بار دھو نہیں سکتے تھے ۔ ان لوگوں کی معاشرتی حیثیت یہ تھی کہ وہ قریش کے بڑے لوگوں کی مجلس میں بیٹھنے کے اہل نہ سمجھے جاتے تھے ۔ ان وجوہات کی بنا پر قریش کے ان اکابرین نے حضور اکرم ﷺ سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ ان لوگوں کو اپنی مجلس سے دور کردیں ۔ حضور اکرم ﷺ نے اس بات سے انکار کردیا۔ اس پر ان لوگوں نے یہ مطالبہ کیا کہ حضور ﷺ ان کے لئے علیحدہ مجلس بنا دیں اور صاحب حیثیت لوگوں کے لئے ایک مجلس بنا دیں جس میں ان فقراء میں سے کوئی بھی نہ ہو ۔ یہ مطالبہ وہ اس لئے کرتے تھے کہ جاہلیت میں دور جاہلیت کی مجالس میں اکابرین قریش کو یہ امتیازات حاصل تھے جن کی وجہ سے وہ عوام پر اپنا رعب بٹھاتے تھے ۔ اس دوسری تجویز کے بارے میں حضور ﷺ نے غور کرنا شروع کردیا محض اس لئے کہ شاید اس طرح ان کے دل میں دعوت اسلامی اتر جائے ۔ اس پر حکم صادر ہوا۔

(آیت) ” وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّہُم بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُونَ وَجْہَہُ “ (6 : 52)

” اور جو لوگ اپنے رب کو رات دن پکارتے رہتے ہیں اور اس کی خوشنودی کی طلب میں لگے ہوئے ہیں انہیں اپنے سے دور نہ پھینکو ۔

امام مسلم نے سعد ابن ابی وقاص سے روایت نقل کی ہے ‘ وہ فرماتے ہیں ہم چھ افراد حضور ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ مشرکین نے حضور اکرم ﷺ سے فرمائش کی ‘ ذرا آپ ان لوگوں کو اپنے ہاں سے ہٹا دیں تاکہ یہ لوگ بےتکلف ہو کر ہمارے خلاف حوصلے نہ پالیں ۔ وہ کہتے ہیں وہ کہتے ہیں ان چھ میں ‘ ایک میں تھا ‘ ابن مسعود ؓ تھے ایک شخص ہذیل کا تھا ‘ بلال تھے اور دو افراد اور تھے جن کے نام یاد نہیں ۔ قریش کی بات کا اثر رسول اللہ ﷺ کے دل پر ہوا جو اللہ نے چاہا ۔ آپ نے ان کی فرمائش پر سوچنا شروع کیا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔

(آیت) ” وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّہُم بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُونَ وَجْہَہُ “ (6 : 52)

” اور جو لوگ اپنے رب کو رات دن پکارتے رہتے ہیں اور اس کی خوشنودی کی طلب میں لگے ہوئے ہیں انہیں اپنے سے دور نہ پھینکو ۔

یہ کبراء ان بیچاروں کے بارے میں بہت کچھ کہتے تھے ۔ ادھر حضور ﷺ کی جانب سے ان پر بےحد عنایات تھیں اور آپ کی مجلس میں ان کا خصوصی مقام تھا ۔ کبراء ان پر الزام لگاتے اور انہیں برا بھلا کہتے اور ان کی غربت اور ضعف پر تنقید کرتے ۔ ان لوگوں کو ان کا حضور ﷺ کی مجلس میں بیٹھنا گوارا نہ تھا اس لئے یہ کبراء اسلام سے نفرت کرتے تھے اور اسلام قبول کرنا نہ چاہتے تھے ۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس امر کے بارے میں ایک فیصلہ کن حکم دے دیا ۔ ان کی اس تجویز کو بنیادی طور پر رد کردیا گیا اور اسے کالعدم قرار دیا گیا ۔