شما در حال خواندن تفسیری برای گروه آیات 6:40 تا 6:41
قُلْ
اَرَءَیْتَكُمْ
اِنْ
اَتٰىكُمْ
عَذَابُ
اللّٰهِ
اَوْ
اَتَتْكُمُ
السَّاعَةُ
اَغَیْرَ
اللّٰهِ
تَدْعُوْنَ ۚ
اِنْ
كُنْتُمْ
صٰدِقِیْنَ
۟
بَلْ
اِیَّاهُ
تَدْعُوْنَ
فَیَكْشِفُ
مَا
تَدْعُوْنَ
اِلَیْهِ
اِنْ
شَآءَ
وَتَنْسَوْنَ
مَا
تُشْرِكُوْنَ
۟۠
۳

(آیت) ” نمبر 40 تا 41۔

اللہ تعالیٰ فطرت انسانی کے خطاب کے لئے جو وسائل استعمال فرماتے ہیں یہ اس کا ایک نمونہ ہے ۔ یہ نمونے اس سے پہلے کی لہروں میں بھی بیان کئے جا چکے ہیں اور اس کے بعد جو فقرات آ رہے ہیں ان میں بھی اس کے نمونے آئیں گے ۔ اس پوری سورة میں انسانی فطرت کو مخاطب کیا گیا ہے ۔

اس سے قبل یہ بات کہی گئی تھی کہ زندہ مخلوقات کے جہان تمہاری نظروں کے سامنے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مدبرانہ قدرت نے ان کے اندر کس قدر تنظیم پیدا کر رکھی ہے ۔ پھر ذرا دیکھو کہ اللہ کا علم کس قدر وسیع اور شامل ہے ۔ اس زیر بحث مجموعہ آیات میں اللہ کے عذاب اور آفات ناگہانی کا ذکر ہے ۔ جب یہ ناگہانی آفات وبلیات انسانی فطرت پر آتی ہیں تو ان کے مقابلے میں کا ردعمل کیا ہوتا ہے ۔ خصوصا اس وقت جب یہ آفات ایک ہولناک صورت میں ہوتی ہیں جس سے انسان کا دل دہل جاتا ہے ۔ ایسے حالات میں انسان کے دل و دماغ سے شرک کے گرد و غبار کی تہیں چھٹ جاتی ہیں اور انسانی فطرت صاف ہو کر سامنے آجاتی ہے اور عقیدہ توحید جو انسانی فطرت کی گہرائیوں میں موجود رہتا ہے وہ سامنے آتا ہے اور انسانی فطرت صرف رب واحد کو پکارتی ہے ۔

(آیت) ” قُلْ أَرَأَیْْتُکُم إِنْ أَتَاکُمْ عَذَابُ اللّہِ أَوْ أَتَتْکُمُ السَّاعَۃُ أَغَیْْرَ اللّہِ تَدْعُونَ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ (40)

” ان سے کہو ‘ ذرا غور کرکے بتا ‘ اگر تم پر اللہ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت آجاتی یا آخری گھڑی آپہنچتی ہے تو کیا اس وقت تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتے ہو ؟ بولو اگر تم سچے ہو ۔

یہاں ایک خوفناک صورت حال کا تصور پیش کیا جاتا ہے اور دنیا میں تباہی و بربادی کے بعض مناظر نظروں کے سامنے لائے جاتے ہیں یا یہ تصور کہ اچانک قیامت برپا ہوجائے ۔ جب انسانی فطرت کے سامنے یہ مناظر آتے ہیں تو فطری احساس چٹکیاں لینے لگتا ہے ۔ ان مناظر کی ہولناکی کا تصور ذہن میں خوبی کے ساتھ آجاتا ہے اور اللہ خوب جانتا ہے جو خالق فطرت ہے کہ اس اسلوب کے ساتھ فطرت ان مناظر کا اچھی طرح ادراک کرلیتی ہے اور بسہولت حقیقت تک رسائی حاصل کرلیتی ہے ۔ اس کی تمام قوتیں ان مناظر کی وجہ سے حرکت میں آجاتی ہیں اس لئے کہ ان ہولناک مناظر میں جو حقیقت ہوتی ہے وہ فطرت انسانی کے اندر موجود ہوتی ہے ۔ خالق فطرت کو تو اچھی طرح علم ہے کہ یہ حقیقت فطرت کے اندر موجود ہوتی ہے اس لئے باری تعالیٰ اس اسلوب میں فطرت سے مخاطب ہوتے ہیں اور فطرت اس تصور کو قبول کرلیتی ہے ‘ کانپ اٹھتی ہے اور غفلت اور سرکشی پردوں اور غبار کی تہوں کے نیچے سے صاف صاف نمودار ہوجاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتے ہیں یا جواب طلب فرماتے ہیں اور خود ان کی زبان سے جواب چاہتے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ یہ جواب ان کی فطرت کا حقیقی اظہار ہے ۔ (آیت) ” اغیر اللہ تدعون “۔ کیا تم اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتے ہو ‘ اگر تم سچے ہو تو جواب دو ۔ “

ان کی جانب سے جواب کا انتظار کئے بغیر سچا اور حقیقی جواب آجاتا ہے جو عملا ان کی فطرت کے مطابق ہے ۔ اگرچہ وہ جواب نہ دیں لیکن ایسے مواقع پر ان کا عمل کچھ ایسا ہی ہوتا ہے ۔

(آیت) ” بَلْ إِیَّاہُ تَدْعُونَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَیْْہِ إِنْ شَاء وَتَنسَوْنَ مَا تُشْرِکُونَ (41)

” اس وقت تم اللہ ہی کو پکارتے ہو ۔ پھر اگر وہ چاہتا ہے تو اس مصیبت کو تم پر سے ٹال دیتا ہے ۔ ایسے موقعوں پر تم اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو بھول جاتے ہو۔

بلکہ تم صرف اللہ وحدہ ہی کو پکارو گے اور ایسے حالات میں تم اپنے شرکیہ تصورات کو یکسر بھول جاؤ گے ۔ یہ خوفناک صورت حال تمہاری اصل فطرت کو سطح تک لے آئے گی اور اب یہ فطرت صرف اللہ وحدہ کو پکارے گی ۔ اسے یہ بات یاد بھی نہ رہے گی کہ کوئی شخص شرک کرتے ہوئے غیر اللہ کو بھی پکارتا رہا ہے ۔ سرے سے حقیقت شرک بھی ان کے ذہن سے محو ہوجائے گی ۔ اس لئے کہ معرفت کردگار ہی وہ اصل حقیقت ہے جو انسانی فطرت کے اندر موجود ہوتی ہے ۔ رہے شرکیہ تصورات تو یہ جھلکی کی طرح عارضی چیز ہوتی ہے ۔ بعض عارضی عوامل اور حالات کی وجہ سے یہ شرکیہ تصورات جنم لیتے ہیں ۔ انسانی فطرت پر یہ عارضی پردے پڑ کر اصل حقیقت کو نیچے چھپا دیتے ہیں ۔ جب کوئی خوفناک صورت حالات انسان کو جھنجھوڑتی ہے ۔ تو اوپر کے پردے اور غبار چھٹ جاتے ہیں ۔ اور نیچے سے اصل حقیقت نمودار ہوجاتی ہے ۔ اب یہ فطرت رب ذوالجلال کے سامنے اپنا رد عمل ظاہر کرتی ہے اور امید کرتی ہے کہ ان خوفناک حالات میں صرف اللہ تعالیٰ ہی انسان کی مدد کرسکتے ہیں اور ایسے حالات میں انسان کے لئے کوئی اور چارہ کار نہیں رہتا ۔

یہ ہے انسان کی حقیقی فطری روش ۔ اللہ تعالیٰ مشرکین کے سامنے انسان کے اس فطری ردعمل کو برائے غور پیش فرماتے ہیں لیکن ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ کی شان بےنیازی کیا روش اختیار فرماتی ہے ؟ یہ کہ اگر اللہ چاہے کہ ان پر سے ان مشکلات کو دور فرما دے تو اس کی مشیت بےقید ہے ۔ اس کے ارادے کو رد کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ اگر چاہے تو ان کی دعاؤں کو قبول کرلے ‘ تکالیف پوری طرح دور ہوجائیں یا جزوی طور پر دور ہوجائیں ۔ اور اگر اس کی مشیت کا تقاضا یہ ہو کہ ان کی پکار کو رد کردیتا ہے ۔ یہ فیصلہ ‘ اس کی تقدیر ‘ اس کے علم اور اس کی حکمت پر موقوف ہے ۔

اگرچہ شرک انسانی فطرت کے خلاف ہے لیکن بعض اوقات انسان شرکیہ تصورات اختیار کرلیتا ہے ۔ یہ وہ اس وقت اختیار کرتا ہے جب وہ راہ فطرت سے انحراف اختیار کرلیتا ہے اور یہ انحراف مختلف عوامل کی وجہ سے واقع ہوتا ہے اور یہ عوامل انسان کے اندر جو صاف ستھری فطرت موجود ہے اسے دبا دیتے ہیں اور ان عوامل کے نیچے رب واحد کی حقیقی معرفت انسان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے ۔ اس لئے کہ انسان کبھی بھی وجود باری کا منکر نہیں رہا ہے اور نہ یہ اس کا فطری موقف رہا ہے کہ وہ وجود باری سے انکار کردے ۔

جیسا کہ ہم بارہا دیکھ چکے ہیں کہ جو لوگ بظاہر اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ ملحد ہیں اور وہ وجود خالق کے منکر ہیں ‘ درحقیقت وہ خدا کے منکر نہیں ہوتے ۔ ہم یہ یقین نہیں کرسکتے کہ جن لوگوں کو دست قدرت نے بنایا ہے اور جن کے وجود کے ہر ذرے اور ہر خیلے میں دست قدرت کی چھاپ موجود ہے ‘ پھر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے خالق کو بالکل بھول جائیں اور حقیقی ملحد ہوجائیں ۔ ان کے وجود کا تو ہر ذرہ ذات باری پر گواہ ہے ۔

انسانیت پر اس خوفناک عذاب کے نزول کی ایک طویل داستان ہے ، کنیسہ اور فطرت کے درمیان ایک طویل عرصے تک کشمکش جاری رہی ۔ کینسہ اس جدوجہد میں رہا کہ فطری عامل اور دواعی کا قلع قمع کر دے ۔ اہل کنیسہ انسان کی فطری خواہشات اور میلانات کی قانونی حیثیت کا انکار کرتے تھے ۔ جبکہ درحقیقت وہ نہایت ہی مکروہ زندگی بسر کرتے تھے جو عیاشیوں سے پر تھی ۔ اس طرح فطرت کے ساتھ مخاصمت اور کشمکش یورپ میں صدیوں تک برپا رہی ۔ اس کا نتیجہ یہ وہا کہ اہل یورپ نے یہ سمجھا کہ خدا پرستی کا مطلب فطرت کا انکار ہے یوں وہ کفر اور الحاد کے صحرا میں گم گشتہ راہ ہوگئے اور کنیسہ کی رہبانی زندگی سے بھی مکروہ ترزندگی اور سراب کے پیچھے بھاگتے رہے ۔ (دیکھئے میری کتاب المستقبل لھذا الدین کی فصل غیر فطری افتراق)

اس صورت حال سے یہودیوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور نصاری کو اپنے صحیح دین سے برگشتہ کردیا تاکہ ان کی نکیل ان کے ہاتھ آجائے اور وہ خوب اچھی طرح سے ان کے اندر فسق وفجور اور اخلاقی بےراہ روی پھیلا سکیں اور ان کو اپنے مقاصد کے لئے اس طرح استعمال کریں جس طرح گدھے کو استعمال کیا جاتا ہے ‘ جس کا اظہار انہوں نے تلمود اور یہودی زعما کے پروٹوکولز میں بڑی صراحت سے کیا ہے ۔ یہودی یہ کام اس وقت تک نہ کرسکتے جب تک انہوں نے یورپ کی اس غیر فطری تاریخ کنیسہ پر تنقید کر کے لوگوں کو گمراہ نہ کردیا اور لوگوں کو کنیسہ سے منتفر کر کے ملحد نہ بنا دیا ۔

اس صریح اور ان تھک مکارانہ جدوجہد کا آخری اظہار عالمی کمیونزم کی صورت میں ہوا ۔ یہ بات یاد رہے کہ عالمی کمیونزم لوگوں کو ملحد اور گمراہ کرنے کی ایک عظیم یہودی سازش تھی ۔ یہ لوگ گزشتہ نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے سے تمام حکومتی ذرائع ابلاغ کے ذریعے لوگوں کو ملحد بنانے میں مصروف رہے لیکن دوسری اقوام کے دلوں کی گہرائی کے اندر اب بھی عقیدہ خدا پرستی موجود ہے ۔ سٹالن جیسے وحشی انسان کو بھی بالاخر کنیسہ کے ساتھ مصالحت کرنی پڑی اور دوسری عالم گیرجنگ کے دوران اس نے کنیسہ کے مشائخ کو رہا کردیا ۔ دوسری عالم گیر جنگ نے اس پر اس قدر بوجھ ڈالا کہ اس کی گردن بھی تصور خدا کے سامنے آخر جھک ہی گئی اس لئے کہ لوگوں کی فطرت کے اندر تصور خدا موجود تھا ۔ اگرچہ سٹالن اور اس کے مٹھی بھر ساتھی ملحد تھے جن کے ہاتھوں میں زمام حکومت تھی ۔

یہودیوں نے اپنے صلیبی خرکاروں فائدہ اٹھاتے ہوئے ان اقوام کے اندر بھی کفر والحاد کا مصنوعی سیلاب لانے کی بےحد سعی کی ۔ اگرچہ مسلم اقوام کے دل و دماغ میں عقیدہ خدا پرستی نہایت ہی کمزور ہوگیا تھا لیکن انہوں نے ترکی کے نام نہاد لیڈر اتاترک کے زریعے عالم اسلام کے اندر کفر والحاد کی جو تحریک شروع کی تھی وہ تحریک خود ترکی کے اندر بری طرح ناکام ہوگئی ‘ حالانکہ یہودیوں اور ان کے خرکاروں نے اس نام نہاد لیڈر کی عظمت اور برتری کے ڈھنڈورے پیٹے اور ہر طرف سے مالی امداد کے دروازے کھول دیئے ۔ ترکی کی تحریک الحاد پر انہوں نے بیشمار کتابیں بھی لکھیں اور ان میں اس کے الحادی تجربے کو بےحد سراہا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ عالم اسلام میں ترکی کے تجربے کے بعد جو دوسرے تجربے کررہے ہیں ان کو وہ الحاد وزندقہ کا عنوان نہیں دیتے بلکہ یہاں وہ اسلام کے نام سے الحاد پھیلاتے ہیں تاکہ ان کی تحریک کا ٹکراؤ انسان کے فطری میلانات سے نہ ہو ‘ جس طرح اتاترک کے تجرباتی کے انسان کے فطری رجحان کے ساتھ ٹکراؤ ہوا اور وہ اپنی جگہ پاش پاش ہوگیا ۔ اب یہ لوگ اسلامی جھنڈوں کے سائے تلے گندگی ‘ غلاظت اور اخلاقی بےراہ روی پھیلاتے ہیں ۔ اس طرح خام انسانی عقول کو تباہ وبرباد کرتے ہیں اور یہودی اور ان کے خرکار صلیبی یہ کام عالم اسلام میں بڑے اہتمام سے کرتے ہیں ۔

لیکن ان تمام تجربات کے بعد جو حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی فطرت اپنے رب کو اچھی طرح جانتی ہے وہ رب کو وحدہ لاشریک بھی تسلیم کرتی ہے اگر کسی وقت انسانی فطرت پر فسق وفجور کی گرد پڑجائے اور وہ اس آلودگی کے نیچے دب جائے تو جونہی کوئی اچانک کوئی خطرہ درپیش ہو اور انسان جھنجھوڑا جائے تو یہ گرد و غبار چھٹ جاتا ہے اور اصل انسانی فطرت واضح طور پر سامنے آجاتی ہے اور انسان اپنے رب کو یوں پکارتا ہے ۔ جس طرح اس وقت انسان نے پکارا تھا جب اسے اللہ نے پیدا کیا تھا ۔ اچانک وہ مطیع فرمان مومن اور خشوع و خضوع کرنے والا انسان بن جاتا ہے ۔ یہودیوں اور ان کے خر کاروں کی اس عالمی سازش کا تارو پود فطرت کی ایک کڑکے دار چیخ سے ہی پاش پاش ہوجاتا ہے اور فطرت دوبارہ باری تعالیٰ کے آستانے پر آگرتی ہے ۔ جس خطے میں یہ فطری آواز بلند ہو وہاں سے یہ سازش نابود ہوجاتی ہے ۔ اور یہودی اور ان کے خرکار جس قدر جدوجہد بھی کریں ‘ زمین پر یہ آواز حق بلند ہوتی رہے گی ۔