وَمِنْ
دُوْنِهِمَا
جَنَّتٰنِ
۟ۚ
۳

آیت 62{ وَمِنْ دُوْنِہِمَا جَنَّتٰنِ۔ } ”اور ان سے پرے دو جنتیں اور بھی ہیں۔“ مفسرین نے ان دو جنتوں کی مختلف توجیہات کی ہیں ‘ لیکن جیسا کہ قبل ازیں آیت 46 کی تشریح میں ذکر ہوچکا ہے ‘ میرے نزدیک ان میں سے دو جنتیں جنوں اور انسانوں کے لیے الگ الگ نچلے درجے میں ہیں اور دو جنتیں ان دونوں گروہوں کے لیے الگ الگ اونچے درجے میں ہیں۔ اہل جنت کے ان درجات کی وضاحت اگلی سورت یعنی سورة الواقعہ میں ملے گی یاد رہے کہ سورة الرحمن اور سورة الواقعہ کا آپس میں جوڑے کا تعلق ہے۔ سورة الواقعہ میں اہل جہنم اَصْحٰبُ الشِّمَال کے مقابلے میں اہل جنت کے دو گروہوں کا ذکر ہوا ہے۔ ان میں ایک گروہ تو اَصْحٰبُ الْیَمِیْن دائیں جانب والوں کا ہے۔ ان کے لیے الگ جنت کا ذکر ہے جو نسبتاً نچلے درجے کی جنت ہوگی۔ جبکہ دوسرا گروہ مقربین بارگاہ کا ہے : { وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ۔ اُولٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ۔ } ”اور آگے نکل جانے والے تو ہیں ہی آگے نکل جانے والے۔ وہ تو بہت مقرب ہوں گے“۔ یہ وہی خوش نصیب لوگ ہیں جن کا ذکر سورة التوبہ میں بایں الفاظ آیا ہے : { وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ لا رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًاط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۔ } ”اور پہلے پہل سبقت کرنے والے مہاجرین اور انصار میں سے ‘ اور وہ جنہوں نے ان کی پیروی کی نیکوکاری کے ساتھ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے ‘ اور اس نے ان کے لیے وہ باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے ندیاں بہتی ہوں گی ‘ ان میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ یہی ہے بہت بڑی کامیابی۔“ سورة الواقعہ میں ان مقربین بارگاہ کے لیے بہت خصوصی انداز میں جنت کا ذکر ہوا ہے۔ ظاہر ہے ان لوگوں کے لیے بہت اونچے درجے کی جنت ہوگی۔ چناچہ میری رائے میں سورة الرحمن کی آیت 46 میں جن دو جنتوں جنوں اور انسانوں کے لیے الگ الگ کا ذکر ہوا ہے وہ اصحاب الیمین کے لیے ہیں ‘ جبکہ زیر مطالعہ آیات میں جنوں اور انسانوں میں سے مقربین بارگاہ کی جنتوں کا ذکر ہونے جا رہا ہے۔