وَقَالَ
الَّذِیْنَ
كَفَرُوْا
لَا
تَسْمَعُوْا
لِهٰذَا
الْقُرْاٰنِ
وَالْغَوْا
فِیْهِ
لَعَلَّكُمْ
تَغْلِبُوْنَ
۟
۳

یہ وہ بات ہے جو قریش کے کبراء اپنے آپ کو اور جمہور عوام کو کہتے تھے۔ یہ لوگ قرآن کریم کی حیرت انگیز اثر آفرینی سے عاجز آگئے تھے۔ یہ اثر ان پر بھی تھا اور عوام پر بھی تھا۔

لا تسمعوا لھذا القران (41 : 26) ” اس قرآن کو ہرگز نہ سنو “۔ کیونکہ جس طرح وہ کہتے تھے یہ ان پر جادو کرتا ہے۔ ان کی سوچ پر غالب آجاتا ہے اور ان کی زندگی کو خراب کر رہا ہے۔ باپ اور بیٹے کے درمیان تفرقہ کردیتا ہے ، خاوند اور بیوی کے درمیان جدائی کردیتا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ قرآن ایسی جدائیاں کردیتا تھا لیکن اس لیے کہ خود اللہ نے ایمان اور کفر کے درمیان جدائی کردی ہے ، ہدایت اور ضلالت کے درمیان جدائی کردی ہے ، جو اسے مانتا تھا وہ خلوص سے مانتا تھا۔ اس لیے اس کے بعد وہ کسی اور تعلق کو خاطر میں نہ لاتا تھا۔ چناچہ اس طرح جدائیاں ہوجاتی تھیں۔

والغوا فیہ لعلکم تغلبون (41 : 26) ” اور اسی میں خلل ڈالو ، شاید کہ اس طرح تم غالب آجاؤ “۔ یہ پاگلوں کی باتیں ہیں۔ لیکن وہ اس کے سوا کہہ کیا سکتے ہیں وہ تو عاجز آچکے ہیں ، وہ دلیل وبرہان سے بات نہیں کرسکتے کہ انہیں کوئی دلیل و حجت دستیاب ہی نہیں ہے۔ اس لیے پاگل پنے پر اتر آئے ہیں اور جو شخص ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوتا وہ پھر اس پاگل پنے پر اتر آتا ہے۔

چناچہ انہوں نے رستم و اسفند یار کے قصوں کے ذریعہ قرآن میں خلل ڈالنے کی کوشش کی۔ ابن نصر خصوصاً یہ کام کرتا تھا۔ اس طرح شورو شغب اور سیٹیاں بجانے کے ذریعے قرآن میں خلل ڈالنے کی کوشش کی۔ ابن نصر خصوصاً یہ کام کرتا تھا۔ اس طرح شورو شغب اور سیٹیاں بجانے کے ذریعے بھی وہ یہ کام کرتے تھے اور اپنے سجع اور رجز کے اشعار کے ذریعے بھی کرتے تھے لیکن یہ سب تدبیریں ہوا ہوگئیں اور قرآن غالب رہا۔ کیونکہ اس کے اندر غلبے کا راز تھا۔ وہ حق پر مشتمل تھا۔ اور سچائی ہمیشہ غالب ہوا کرتی ہے۔ اگرچہ اہل باطل لاکھ جتن کریں ان کی اس مکروہ بات کی تردید میں ان کو سخت ڈراوا دیا جاتا ہے۔