وَقَالَ
فِرْعَوْنُ
ذَرُوْنِیْۤ
اَقْتُلْ
مُوْسٰی
وَلْیَدْعُ
رَبَّهٗ ۚ
اِنِّیْۤ
اَخَافُ
اَنْ
یُّبَدِّلَ
دِیْنَكُمْ
اَوْ
اَنْ
یُّظْهِرَ
فِی
الْاَرْضِ
الْفَسَادَ
۟
۳

آیت نمبر 26

اس کے اس قول سے ذرونی اقتل موسیٰ (40: 26) ” چھوڑو مجھے ، میں اس موسیٰ کو قتل کروں “ سے معلوم ہوتا ہے ، اس کے حاشیہ نشینوں کی جانب سے حضرت موسیٰ کے قتل کے خلاف دلائل دیئے جارہے تھے کہ اگر آپ موسیٰ کو قتل کر بھی دیں تو مسئلہ ختم نہ ہوگا ، جمہور عوام انہیں شہید سمجھ کر اسے ایک مقدس شخصیت قرار دیں گے۔ اس طرح لوگ شعوری طور پر ان کے دین کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہون ، خصوصاً جبکہ ایک قومی میلے کے دن جادوگر اس پر ایمان لاچکے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کی وجہ بھی لوگوں کو بتادی ہے۔ حالانکہ جادوگروں کو جمع اس لیے کیا گیا تھا کہ اس کے دین کو باطل ثابت کریں اور یہ بھی ممکن ہے کہ بادشاہ کے بعض مشیر دل ہی دل میں ڈرگئے ہوں کہ حضرت موسیٰ کا خدا ان سے انتقام لے گا۔ اور وہ خدا کی پکڑ میں آجائیں گے ، یہ بات بعید ازامکان نہیں ہے کیونکہ بت پرست تو متعدد الہوں کے قائل ہوتے تھے۔ اور وہ قدرتی طور پر سوچ سکتے تھے کہ موسیٰ کا خدا ان سے انتقام لے۔ اور فرعون کا یہ قول کہ ولیدع ربه (40: 26) ” اور یہ اپنے رب کو بھی پکار دیکھے “۔ اگرچہ بظاہر فرعون کی ایک متکبرانہ بات ہے۔ لیکن شاید یہ ان مشیروں کے رد میں ہو اور اسی متکبرانہ بات کی وجہ سے بعد میں اسے اللہ نے پکڑا اور ہلاک کردیا۔ جیسا کہ بعد میں آئے گا۔ یہ بات بڑی دلچسپ ہے جو فرعون نے حضرت موسیٰ کے قتل کے جواز کے بارے میں کہی۔

انی اخاف۔۔۔۔ الفساد (40: 26) ” مجھے ڈر ہے کہ یہ تمہارا دین بدل ڈالے گا یا زمین میں فساد برپا کردے گا “۔ فرعون کی اس دلیل پر غور ضروری ہے۔ کیا ایک بت پرست بادشاہ کی یہ بات کوئی نئی بات ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ یہ تمہارا دین بدل دے گا ، یا کم ازکم ملک میں فساد ضرور برپا کردے گا۔

یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر سرکش اور مفسد ہمیشہ یہی کہتا ہے ، جب بھی کسی نے اسلام کی اصلاحی دعوت شروع کی ہے۔ مفسدین نے یہی بات کہی کہ انہوں نے اصلاح کو فساد کہا ، ہمیشہ اہل ایمان داعیوں اور مصلحین کے بارے میں مطلب برست سرکشوں اور مفسدوں نے عوام کے سامنے یہی عذر پیش کیا۔

جب بھی حق و باطل کے درمیان کشمکش شروع ہوئی ، باطل کی منطق اور استدلال یہی رہا۔ ایمان اور کفر کی جنگ میں یہی منطق چلتی رہی۔ ہر زمان ومکان میں اور تاریخ کے ہر دور میں اصلاح کو فساد اور فساد کو اصلاح کہا گیا۔ عرض یہ قدیم کہانی ہے اور اسے باربار دہرایا جاتا ہے۔ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے تھے۔ ان کا بھروسہ نہایت مضبوط قوت پر تھا۔ وہ حصن حصین میں محفوظ تھے اور انہوں نے اس ذات کے ہاں پناہ لے رکھی تھی جہاں ہر سرکش متکبر سے بھاگ کر لوگ پناہ لیتے ہیں۔