وَلَقَدْ
اَرْسَلْنَا
مُوْسٰی
بِاٰیٰتِنَا
وَسُلْطٰنٍ
مُّبِیْنٍ
۟ۙ
۳

اب آئندہ آیات میں ”مومن ِآلِ فرعون“ کا واقعہ بیان ہو رہا ہے جو اس سورت کا خاص مضمون ہے۔ وہ فرعون کے دربار میں بہت بڑے مرتبے پر فائز تھے۔ ظاہر ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ ان تک بھی پہنچی ہوگی۔ اس دعوت کے جواب میں اللہ نے ان کا سینہ کھول دیا اور وہ ایمان لے آئے۔ البتہ مصلحت کے تحت انہوں نے اپنے ایمان کا اظہار نہ کیا۔ پھر ایک موقع پر جب فرعون نے اپنی کابینہ کے سامنے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کی تجویز رکھی تو اس مرد حق سے خاموش نہ رہا گیا۔ چناچہ فرعون کی اس تجویز کے جواب میں انہوں نے بھرے دربار میں ایک بہت مدلل ّاور موثر تقریر کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس ”حق گوئی و بےباکی“ کی پذیرائی یوں فرمائی کہ ان کی پوری تقریر کو قرآن کا حصہ بنا دیا۔ وہ نہ نبی تھے اور نہ رسول ‘ لیکن ان کی طویل تقریر جس شان سے اللہ تعالیٰ نے نقل فرمائی ہے اس کی کوئی مثال قرآن میں کسی نبی یا رسول کے حوالے سے بھی نہیں ملتی۔ ان کے اس خصوصی اعزاز سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس شان سے اپنے بندوں کی قدر افزائی فرماتا ہے۔آیت 23 ‘ 24 { وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ ’ اور ہم نے بھیجا تھا موسیٰ علیہ السلام ٰ کو اپنی نشانیوں اور کھلی سند کے ساتھ ‘