شما در حال خواندن تفسیری برای گروه آیات 2:12 تا 2:16
اَلَاۤ
اِنَّهُمْ
هُمُ
الْمُفْسِدُوْنَ
وَلٰكِنْ
لَّا
یَشْعُرُوْنَ
۟
وَاِذَا
قِیْلَ
لَهُمْ
اٰمِنُوْا
كَمَاۤ
اٰمَنَ
النَّاسُ
قَالُوْۤا
اَنُؤْمِنُ
كَمَاۤ
اٰمَنَ
السُّفَهَآءُ ؕ
اَلَاۤ
اِنَّهُمْ
هُمُ
السُّفَهَآءُ
وَلٰكِنْ
لَّا
یَعْلَمُوْنَ
۟
وَاِذَا
لَقُوا
الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا
قَالُوْۤا
اٰمَنَّا ۖۚ
وَاِذَا
خَلَوْا
اِلٰی
شَیٰطِیْنِهِمْ ۙ
قَالُوْۤا
اِنَّا
مَعَكُمْ ۙ
اِنَّمَا
نَحْنُ
مُسْتَهْزِءُوْنَ
۟
اَللّٰهُ
یَسْتَهْزِئُ
بِهِمْ
وَیَمُدُّهُمْ
فِیْ
طُغْیَانِهِمْ
یَعْمَهُوْنَ
۟
اُولٰٓىِٕكَ
الَّذِیْنَ
اشْتَرَوُا
الضَّلٰلَةَ
بِالْهُدٰی ۪
فَمَا
رَبِحَتْ
تِّجَارَتُهُمْ
وَمَا
كَانُوْا
مُهْتَدِیْنَ
۟
۳

جو لوگ فائدوں اور مصلحتوں کو اولین اہمیت ديے ہوئے ہوتے ہیں ان کے نزدیک یہ نادانی کی بات ہوتی ہے کہ کوئی شخص تحفظات کے بغیر اپنے آپ کو ہمہ تن حق کے حوالے کردے۔ ایسے لوگوں کی حقیقی وفاداریاں اپنے دنیوی مفادات کے ساتھ ہوتی ہیں۔البتہ اسی کے ساتھ وہ حق سے بھی اپنا ایک ظاہری رشتہ قائم کرلیتے ہیں۔ اس کو وہ عقل مندی سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ان کی دنیا بھی محفوظ ہے اور اسی کے ساتھ ان کوحق پرستی کا تمغہ بھی حاصل ہے۔ مگر یہ ایک ایسی خوش فہمی ہے جو صرف آدمی کے اپنے دماغ میںہوتی ہے۔ اس کے دماغ کے باہر کہیں اس کا وجود نہیں ہوتا۔ آزمائش کا ہر موقع ان کو سچے دین سے کچھ اور دور، اور اپنے مفاد پرستانہ دین سے کچھ اور قریب کردیتا ہے۔ اس طرح گویا ان کے نفاق کا مرض بڑھتا رہتا ہے۔ ایسے لوگ جب سچے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں تو ان کا احساس یہ ہوتا ہے کہ وہ خواہ مخواہ سچائی کی خاطر اپنے کو برباد کررہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اپنے طریقے کو وہ اصلاح کا طریقہ کہتے ہیں۔ کیوں کہ ان کو نظر آتا ہے کہ اس طرح کسی سے جھگڑا مول لیے بغیر اپنے سفر کو کامیابی کے ساتھ طے کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ صرف بے شعوری کی بات ہے۔ اگر وہ گہرائی کے ساتھ سوچیں تو ان پر کھلے گا کہ اصلاح یہ ہے کہ بندے صرف اپنے رب کے ہوجائیں۔ اس کے برعکس، فساد یہ ہے کہ خدا اور بندے کے تعلق کو درست کرنے کے لیے جو تحریک چلے اس میں روڑے اٹکائے جائیں۔ ان کا یہ بظاہر نفع کا سودا حقیقۃً گھاٹے کا سودا ہے۔ کیوں کہ وہ بے آمیز حق کو چھوڑ کر ملاوٹی حق کو اپنے لیے پسند کررہے ہیں جو کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔ اپنے دنیوی معاملات میںہوشیار ہونا اور آخرت کے معاملہ میں سرسری توقعات کو کافی سمجھنا، گویا خدا کے سامنے جھوٹ بولنا ہے۔ جو لوگ ایسا کریں ان کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ اس قسم کی جھوٹی زندگی آدمی کو اللہ کے یہاں عذاب کے سوا کسی اورچیز کا مستحق نہیں بناتی۔