وَنَزَعْنَا
مِنْ
كُلِّ
اُمَّةٍ
شَهِیْدًا
فَقُلْنَا
هَاتُوْا
بُرْهَانَكُمْ
فَعَلِمُوْۤا
اَنَّ
الْحَقَّ
لِلّٰهِ
وَضَلَّ
عَنْهُمْ
مَّا
كَانُوْا
یَفْتَرُوْنَ
۟۠
۳

آیت 75 وَنَزَعْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیْدًا ”یہ مضمون دو مرتبہ سورة النحل آیت 84 اور 89 میں بھی آیا ہے ‘ لیکن سورة النساء کی یہ آیت تو گویا اس مضمون کا ذروۂ سنام ہے : فَکَیْفَ اِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا۔ ”تو اس دن کیا صورت حال ہوگی جب ہم ہر امت سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور اے نبی ﷺ ! آپ کو لائیں گے ہم ان پر گواہ بنا کر“۔ جو پیغمبر جس قوم کی طرف مبعوث کیا گیا ہوگا وہ قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں استغاثہ کا گواہ prosecution witness بن کر گواہی دے گا کہ اے اللہ ! تیری طرف سے جو ہدایت مجھ تک پہنچی تھی میں نے وہ اپنی قوم تک پہنچا دی تھی۔ فَقُلْنَا ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ ”پھر متعلقہ امت سے پوچھا جائے گا کہ اب تم لوگ بتاؤ تمہارا کیا معاملہ تھا ؟ ہمارے رسول نے تو گواہی دے دی ہے کہ اس نے میرا پیغام آپ لوگوں تک پہنچا دیا تھا۔ اب اس سلسلے میں تمہارا کوئی عذر ہے تو پیش کرو۔فَعَلِمُوْٓا اَنَّ الْحَقَّ لِلّٰہِ ”کہ فیصلہ تو اب اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور وہی حق ہوگا۔ چناچہ انہیں یقین ہوجائے گا کہ وہ عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں۔وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ”گویا ع ”جب آنکھ کھلی گل کی تو موسم تھا خزاں کا !“ جب دوسری دنیا میں ان کی آنکھ کھلے گی تو ان کے خود ساختہ عقائد ‘ من گھڑت معبودوں کے بارے میں ان کے خوش کن خیالات وغیرہ سب ان سے گم ہوچکے ہوں گے اور اس کیفیت میں عذاب کو دیکھ کر ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے۔