لَا
یُسْـَٔلُ
عَمَّا
یَفْعَلُ
وَهُمْ
یُسْـَٔلُوْنَ
۟
۳

لایسئل عما یفعل و ھم یسئلون (12 : 32) ” وہ اپنے کاموں کے لیے جواب دہ نہیں ہے اور دوسرے سب جواب دہ ہیں “۔ وہ تو خود اپنے بندوں پر پوری طرح حاوی ہے۔ اس کا ارادہ آزاد ہے۔ اس کے اوپر کوئی قید و بند نہیں ہے اور نہ کوئی دوسرا ارادہ آڑے آسکتا ہے۔ اس کے ارادے کے سامنے وہ قانون قدر بھی رکاوٹ نہیں بن سکتا جو اس نے خود جاری کیا ہے۔ سوال اور محاسبہ تو کسی معیار اور کسی پیمانے اور حدود کے مطاق ہوتا ہے جو وضع کیے گئے ہوں اور اللہ تو خود واضع حدود ہے اور معیار اور پیمانے مقرر کرنے والا ہے۔ وہ خود اپنیمقرر کردہ حدود اور معیار و مقیاس کا پا بند نہیں ہے۔ لوگوں کے لیے چونکہ اللہ کے مقرر کردہ حدود کی پابندی ضروری ہے اس لیے وہ سب اس کے سامنے مسئول ہیں۔

بعض انسانوں کو غور اس قدر اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ وہ عجیب احمقانہ سوالات کرتے رہتے ہیں۔ اللہ نے یہ کام کیوں کیا ؟ یہ چیز کو یں بنائی ؟ اس کی کیا حکمت ہے ‘ ان کی منشا یہ ہے کہ وہ اس حکمت کو سمجھ نہیں پار ہے۔ ایسے لوگ اس میدان میں خالق کائنات کے بارے میں نہایت بےادبی کا رویہ بھی اختیار کرتے ہیں ‘ جس طرح وہ انسانی فہم و ادراک کی حدود سے بھی آگے جارہے ہیں ‘ کیونکہ انسان کے محدود قوائے مدر کہ ہر چیز کا سبب اور علت معلوم نہیں کرسکتے۔

اللہ وہ ذات ہے جو ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ تمام کائنات کی ہر چیز کی تدبیر اس کے ہاتھ میں ہے۔ تمام چیزوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ وہی ہے جو قادر مطلق ‘ مدبر اور حاکم اور حکیم ہے۔

لایسئل عما یفعل وھم یسئلون (12 : 32) ” وہ اپنے کاموں کے لیے جواب دہ نہیں ہے ‘ اور دوسرے سب جواب دہ ہیں “۔ اب اس تکوینی دلیل کے ساتھ ساتھ اللہ ان سے نقلی دلیل کا بھی مطالبہ کرتے ہیں ‘ کہ وہ کیا نقلی دلیل ہے جس کی بنا پر یہ لوگ شرک کرتے ہیں حالانکہ شرک پر تو کوئی دلیل نہیں ہوتی۔