ثم ............ شقا (26:80) ” پھر ہم نے زمین کو عجیب طرح پھاڑا “۔ پانی نے انڈیلنے کے بعد یہ تیسرا مرحلہ ہے۔ یہ بات بالکل ابتدائی اور پتھر کے دور کے انسان کی سمجھ میں بھی آتی تھی جو دیکھتا تھا کہ پانی آسمانوں سے برس رہا ہے اور یہ خدا کی قدرت سے برس رہا ہے اور اس میں انسان کی تدبیر اور تقدیر کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ دیکھ رہا تھا کہ یہ زمین کو پھاڑ کر اس کی مٹی میں جذب ہوتا تھا ، یا وہ دیکھتا تھا کہ زمین کی مٹی اللہ کی قدرت سے شق ہونا ہوتی ہے۔ اس سے نباتات نکلتے ہیں اور فضا میں بلند ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ نباتات ؟ ؟ ؟ ؟ صفحہ نمبر 839؟ ؟ ؟ ؟ اور زمین نہایت بھاری اور مضبوط ہوتی ہے لیکن یہ دست قدرت ہی ہے جو اس مضبوطزمین کو شق کرکے اس کے اندر سے نرم ونازک پودے کو نکالنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ بھی ایک معجزہ ہے جسے ہر انسان دیکھتا ہے جو پودے اور مٹی کا مشاہدہ رکھتا ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات کے اندر ایک خفیہ قوت کام کررہی ہے اور یہ نہایت ہی مہربان قوت ہے۔
لیکن اس ابتدائی مفہوم کے بعد جو علوم آگے پڑھتے ہیں تو آیت کے مفہوم ومدلول کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے۔ اور زمین کے شق ہونے کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ یہ پودوں کی پرورش کے لئے سازگار بنادی گئی ہے۔ جیسا کہ سابقہ نظریہ میں ہم نے بتایا کہ زمین کے اوپر پانی کے ہولناک طوفان آئے۔ جن کے نتیجے میں زمین کے چھلکے کی چٹانیں ٹوٹ پھوٹ کر بہہ نکلیں اور ہموار میدان وجود میں آئے ، جس کے اندر ایسی مٹی جمع ہوگئی جو قابل زراعت ہے ۔ یہ مفہوم بھی اس آیت میں داخل ہے۔
ثم ............................ شقا (26:80) ” پھر ہم نے زمین کو پھاڑا “۔ کی آیت۔
انا صببنا .................................... صبا (25:80) ” ہم نے پانی لنڈھایا “ کے بعد آتی ہے۔ اس سے بھی یہی اشارہ ملتا ہے کہ زمین کا شق ہونا پانی کے بعد ہوا۔
بہرحال ان آیات کا یہ مفہوم ہو یا کوئی تیسرا مفہوم ہو ، بہرحال تحقیق کے تیسرے مرحلے میں نباتات کی تخلیق کا ذکر ہے اور بظاہر ان نباتات کی طرف اشارہ کیا گیا جو انسانوں اور انسانوں کے کام آنے والے مویشیوں کے لئے چارہ کا کام کرتے ہیں اور جن کو ابتدائی انسان بھی اچھی طرح سمجھتا تھا۔