وَّفَاكِهَةً
وَّاَبًّا
۟ۙ

فاکھة وہ میوہ جو باغات اسے حاصل ہو۔

ابا (31:80) کا مفہوم غالباً وہ جسے انسان چارے کے لئے کاشت ونگہداشت کریں۔ اس کے مفہوم کے بارے میں حضرت عمر ؓ سے پوچھا گیا۔ انہوں نے اس کے بارے میں اپنے آپ کو ملامت کیا تھا جیسا کہ سورة نازعات میں گزر گیا ہے۔

یہ تو تھا انسان کے طعام کا قصہ ، اور انسانی طعام کی تمام ضروریات صرف اللہ فراہم کرتا ہے اور اس میں انسان کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس میں انسان کا کوئی دخل نہیں بلکہ انسان دخیل ہونے کا مدعی ہی نہیں ہے کہ وہ اس کے مختلف مراحل میں سے کسی مرحلے میں دخیل ہے۔ یہاں تک کہ زمین کے اندر وہ جو بیج بوتا ہے اس کی نشوونما میں بھی وہ دخیل نہیں ہے۔ نہ انسان نے بیج پیدا کیا اور نہ ایجاد کیا ہے ۔ ابتدائی طور پر یہ حیوانات کس طرح ایجاد ہوئے ، یہ ایک معجزہ ہے۔ اور انسان تصور اور ادراک سے وراء ہے۔ یہ مٹی انسان کے سامنے ہے اور ایک ہے ، اور ہر دانہ ایک ہی زمین میں اور باہم متصل قطعات میں اپنے اپنے پھل اور پھول لاتا ہے جبکہ ایک ہی پانی اور دوسرے عناصر اسے غذا دیتے ہیں لیکن یہ درست قدرت ہی کا کام ہے کہ پودے اور پھل مختلف ہوتے ہیں۔ اور ان پودوں اور پھلوں سے آگے جو بیج پیدا ہوتے ہیں ان میں ” ماں بیج “ کے تمام خصائص موجود ہوتے ہیں۔ یہ باتیں اور یہ ٹیکنالوجی انسان سے مخفی ہے۔ اس کا راز کوئی نہیں جانتا ، نہ اس میں کوئی فیصلہ کرسکتا ہے ، اور نہ اس سے کوئی مشورہ لیا جاتا ہے۔ بہرحال دست قدرت نے جو کچھ کیا وہ یہ ہے اور