وَهُوَ
الَّذِیْ
یَتَوَفّٰىكُمْ
بِالَّیْلِ
وَیَعْلَمُ
مَا
جَرَحْتُمْ
بِالنَّهَارِ
ثُمَّ
یَبْعَثُكُمْ
فِیْهِ
لِیُقْضٰۤی
اَجَلٌ
مُّسَمًّی ۚ
ثُمَّ
اِلَیْهِ
مَرْجِعُكُمْ
ثُمَّ
یُنَبِّئُكُمْ
بِمَا
كُنْتُمْ
تَعْمَلُوْنَ
۟۠

آیت 60 وَہُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰٹکُمْ بالَّیْلِ سورۂ آل عمران کی آیت 55 کی تشریح کے سلسلے میں یُوَفِّیْ ‘ یَتَوَفّٰی اور مُتَوَفِّیوغیرہ الفاظ کی وضاحت ہوچکی ہے ‘ جس سے قادیانیوں کی ساری خباثت کا توڑ ہوجاتا ہے۔ ذرا غور کیجئے ! یہاں وفات دینے کے کیا معنی ہیں ؟ کیا نیند کے دوران انسان مرجاتا ہے ؟ نہیں ‘ جان تو بدن میں رہتی ہے ‘ البتہ شعور نہیں رہتا۔ اس سلسلے میں تین چیزیں الگ الگ ہیں ‘ جسم ‘ جان اور شعور۔ فارسی کا ایک بڑا خوبصورت شعر ہے ؂جاں نہاں در جسم ‘ اُو در جاں نہاں اے نہاں ‘ اندر نہاں ‘ اے جان جاں !جان جسم کے اندر پنہاں ہے اور جان میں وہ پنہاں ہے۔ اے کہ جو پنہاں شے کے اندر پنہاں ہے ‘ تو ہی تو جان جاں ہے !اس شعر میں او وہ سے مراد کچھ اور ہے ‘ جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ اس وقت صرف یہ سمجھ لیجیے کہ ان تین چیزوں یعنی جسم ‘ جان اور شعور میں سے نیند میں صرف شعور جاتا ہے جبکہ موت میں شعور بھی جاتا ہے اور جان بھی چلی جاتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تَوَفِّی مکمل صورت میں وقوع پذیر ہوا تھا ‘ یعنی جسم ‘ جان اور شعور تینوں چیزوں کے ساتھ۔ عام آدمی کی موت کی صورت میں یہ تَوَفِّی ادھورا ہوتا ہے ‘ یعنی جسم یہیں رہ جاتا ہے ‘ جان اور شعور چلے جاتے ہیں ‘ جب کہ نیند کی حالت میں صرف شعور جاتا ہے۔وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بالنَّہَارِ ثُمَّ یَبْعَثُکُمْ فِیْہِ لِیُقْضٰٓی اَجَلٌ مُّسَمًّی ج۔یعنی روزانہ ہم ایک طرح سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ‘ کیونکہ نیند آدھی موت ہوتی ہے۔ جیسے صبح کے وقت اٹھنے کی مسنون دعا میں مذکور ہے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانِیْ بَعْدَ مَا اَمَاتَنِیْ وَاِلَیْہِ النُّشُوْرِ کل شکر اور کل تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے دوبارہ زندہ کیا ‘ اس کے بعد کہ مجھ پر موت وارد کردی تھی اور اسی کی طرف جی اٹھنا ہے۔ اس دعا سے ایک بڑاعجیب نکتہ ذہن میں آتا ہے۔ وہ یہ کہ ہر روز صبح اٹھتے ہی جس شخص کی زبان پر یہ الفاظ آتے ہوں : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانِیْ بَعْدَ مَا اَمَاتَنِیْ وَاِلَیْہِ النُّشُوْرِ قیامت کے دن جب وہ قبر سے اٹھے گا تو دنیا میں اپنی عادت کے سبب اس کی زبان پر خود بخود یہی ترانہ جاری ہوجائے گا ‘ جو اس وقت لفظی اعتبار سے صد فی صد درست ہوگا ‘ کیونکہ وہ اٹھنا حقیقی موت کے بعد کا اٹھنا ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ زندگی میں روزانہ اس کی ریہرسل کی جائے تاکہ یہ عادت پختہ ہوجائے۔