وَاِذَا
جَآءَكَ
الَّذِیْنَ
یُؤْمِنُوْنَ
بِاٰیٰتِنَا
فَقُلْ
سَلٰمٌ
عَلَیْكُمْ
كَتَبَ
رَبُّكُمْ
عَلٰی
نَفْسِهِ
الرَّحْمَةَ ۙ
اَنَّهٗ
مَنْ
عَمِلَ
مِنْكُمْ
سُوْٓءًا
بِجَهَالَةٍ
ثُمَّ
تَابَ
مِنْ
بَعْدِهٖ
وَاَصْلَحَ
فَاَنَّهٗ
غَفُوْرٌ
رَّحِیْمٌ
۟

(آیت) ” وَإِذَا جَاء کَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِآیَاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَیْْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ أَنَّہُ مَن عَمِلَ مِنکُمْ سُوء اً بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِہِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ(54)

” جب تمہارے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو ان کو کہو ” تم پر سلامتی ہے ۔ تمہارے رب نے رحم وکرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کرلیا ہے ۔ (یہ اس کا رحم وکرم ہی ہے کہ) اگر تم میں سے کوئی نادانی کے ساتھ کسی برائی کا ارتکاب کر بیٹھا ہو پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کرلے تو وہ اسے معاف کردیتا ہے اور نرمی سے کام لیتا ہے۔ “

نعمت ایمان کے بعد یہ ان کے لئے ایک بڑا اعزاز ہے ۔ اس سے حساب و کتاب میں بہت ہی نرمی ہوگی اور جزاء میں نہایت ہی فیاضی اور فراوانی ہوگی ۔ اس قدر عظیم رحمت اور یقینی رحمت کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر اس فعل کو فرض کرلیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ ﷺ بعد سلام ایسے مومنین آیات الہی کو خوشخبری بھی دے دیں کہ ان کے ساتھ عفو و درگزر کا سلوک ہوگا بشرطیکہ وہ توبہ اختیار کریں اور صالحانہ روشن اپنائیں ۔ اسی لئے بعض مفسرین نے جہالت کی تعریف یہ کی ہے کہ کوئی ارتکاب ذنوب پر جما ہوا ہو ورنہ جو شخص بھی ارتکاب جرم کرتا ہے وہ جاہلت ہی کی وجہ سے کرتا ہے ۔ اس تفسیر کے مطابق اس نص میں ہر وہ گناہ شامل ہوگا جو کسی سے صادر ہو اور جب وہ توبہ کرے اور نیک ہوجائے تو گناہ معاف ہوجائے گا ۔ اس رائے کی تائید ان آیات ونصوص سے بھی ہوتی ہے جن میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ توبہ اور اس کے بعد اصلاح حال سے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ وہ رحمت الہی ہے جسے اللہ نے اپنے اوپر فرض کرلیا ہے ۔

اس بحث کو ختم کرنے سے پہلے مناسب ہے کی بعض اہم احادیث کا یہاں تذکرہ کردیا جائے جو ان واقعات و حالات کے بارے میں ہیں جن میں یہ آیات نازل ہوئیں ۔ ان آثار و احادیث اور اس آیت کو اگر ملا کر پڑھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دین اسلام اس وقت انسانیت کے اندر کس قدر عظیم انقلاب لا رہا تھا ۔ اس وقت معاشرتی اعتبار سے اسلام نے انسانیت کو جس مقام بلند تک پہنچا دیا تھا ‘ انسانیت آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکی ہے ۔

طبری نے صناد ‘ ابو زید ‘ اشعث کردوس اور حضرت ابن مسعود کے سلسلہ میں روایت سے نقل کیا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ قریش کے کچھ کبراء حضور ﷺ کے پاس سے گزرے ‘ اس وقت آپ ﷺ کے پاس صہیب ‘ عمار ‘ بلال ‘ خباب اور ان جیسے لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ ہم تمام مسلمانوں میں زیردست لوگ تھے ۔ ان کبراء نے کہا : ” اے محمد ﷺ کای تم نے اپنی قوم سے ان لوگوں کو منتخب کیا ہے ؟ کیا ہم میں سے اللہ نے صرف ان لوگوں پر احسان کیا ہے ؟ کیا ہم ان لوگوں کے زیر اطاعت آجائیں ؟ آپ ان لوگوں کو اپنے پاس سے بھگا دیں ‘ اگر آپ نے ایسا کیا تو ممکن ہے کہ ہم تمہارے مطیع ہوجائیں اس واقعہ پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔

(آیت) ” وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّہُم بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُونَ وَجْہَہُ مَا عَلَیْْکَ مِنْ حِسَابِہِم مِّن شَیْْء ٍ وَمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْْہِم مِّن شَیْْء ٍ فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُونَ مِنَ الظَّالِمِیْنَ (52) وَکَذَلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُم ۔۔۔۔۔۔۔ (53) (6 : 52۔ 53) تک۔

طبری نے حسین ابن عمرو ابن محمد عنقزی ‘ انہوں نے اپنے والد ‘ انہوں نے بعض دوسرے لوگوں اور انہوں نے سدی اور ابو سعید ازدی سے نقل کیا ہے ۔ یہ ازد قبیلہ کے قاری تھے ۔ انہوں نے خباب سے اس آیت ۔

(آیت) ” وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّہُم بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُونَ وَجْہَہُ مَا عَلَیْْکَ مِنْ حِسَابِہِم مِّن شَیْْء ٍ وَمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْْہِم مِّن شَیْْء ٍ فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُونَ مِنَ الظَّالِمِیْنَ (52)

کے بارے میں کہا کہ اقرع ابن حابس تمیمی اور عینیہ ابن حصن فزاری آئے ۔ انہوں نے دیکھا کہ حضور ﷺ بلال ‘ صہیب ‘ عمار ‘ خباب اور دوسرے ضعیف اور کمزور اہل ایمان کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ ان لوگوں نے جب ان ضعفاء کو دیکھا تو انہیں حقیر سمجھا ۔ یہ دونوں حضور ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا ‘ ہم چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے ہمراہ ایک جگہ بیٹھیں جس کی وجہ سے عربوں کے اندر ہماری عزت ہو ‘ کیونکہ آپ کے پاس عربوں کے وفود آتے جاتے ہیں لیکن ہم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ ہمیں عرب آپ کے پاس ان دوسرے درجے کے لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے پائیں ۔ جب ہم آپ لوگوں کے پاس آئیں تو آپ ذرا ان لوگوں کو اپنے پاس سے اٹھا دیا کریں ۔ جب ہم چلے جائیں تو پھر آپ آزاد ہیں ان کے پاس بیٹھیں یا نہ بیٹھیں ۔ آپ نے فرمایا ” درست “ اس پر ان لوگوں نے یہ مطالبہ کیا کہ اس سلسلے میں آپ ایک پروٹوکول پر دستخط فرما دیں ۔ راوی کہتا ہے آپ نے کاغذ منگوایا اور حضرت علی ؓ کو بلایا کہ انہیں یہ بات لکھ دیں ۔ راوی کہتا ہے ہم ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے کہ جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور یہ آیت نازل ہوئی ۔

(آیت) ” وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّہُم بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیَ (52)

” اور جو لوگ اپنے رب کو رات دن پکارتے رہتے ہیں اور اس کی خوشنودی کی طلب میں لگے ہوئے ہیں انہیں اپنے سے دور نہ پھینکو ۔ ان کے حساب میں سے کسی چیز کا بار تم پر نہیں ہے اور تمہارے حساب میں سے کی چیز کا بار ان پر نہیں ۔ اس پر بھی اگر تم انہیں دور پھینکو گے تو ظالموں میں شمار ہو گے ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے پڑھا ۔

(آیت) ” وَکَذَلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لِّیَقُولواْ أَہَـؤُلاء مَنَّ اللّہُ عَلَیْْہِم مِّن بَیْْنِنَا أَلَیْْسَ اللّہُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاکِرِیْنَ (53)

” دراصل ہم نے اس طرح ان لوگوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعے آزمائش میں ڈالا ہے ۔ تاکہ وہ انہیں دیکھ کر کہیں ” کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر ہمارے درمیان اللہ کا فضل وکرم ہوا ہے ؟ ہاں ! کیا خدا اپنے شکر گزار بندوں کو ان سے زیادہ نہیں جانتا ہے ؟ “۔ اور اس کے بعد پڑھا ۔

(آیت) ” وَإِذَا جَاء کَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِآیَاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَیْْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ ۔ (6 : 54)

” جب تمہارے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو ان کو کہو ” تم پر سلامتی ہے ۔ تمہارے رب نے رحم وکرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کردیا ہے ۔ “ اس پر رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے کاغذ پھینک دیا ۔ اور ہمیں بلایا اور آپ یہ آیت پڑھ رہے تھے ۔

(آیت) ” سَلاَمٌ عَلَیْْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ “۔ (6 : 54)

اس کے بعدہم آپ کے پاس بیٹھا کرتے اور جب آپ جانا چاہتے تو خود اٹھ کر چلے جاتے اور ہم اپنی جگہ پر ہوتے ۔ اس کے بعد سورة کہف کی یہ آیت (واصبر نفسک مع الذین یدعون ربھم بالعدواۃ والعشی یریدون وجھہ ولا تعد عینک عنھم ترید زینۃ الحیوۃ الدنیا (18 : 28)

” اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح وشام اسے پکارتے ہیں اور ان سے ہر گز نگاہ نہ پھیرو “۔ کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو “۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ ہمارے ساتھ بیٹھے رہتے اور جب وقت ہوجاتا تو ہم خود اٹھ جاتے اور آپ ﷺ کو اکیلا چھوڑتے کہ آپ ﷺ اٹھ کر چلے جائیں ۔

(ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس حدیث پر یہ تبصرہ کیا ہے کہ ” یہ حدیث غریب ہے ۔ یہ آیت مکی ہے ‘ اور اقرع ابن حابس اور عیینہ ہجرت کے بہت بعد میں مسلمان ہوئے ہیں ۔ “ لیکن اس تنقید کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ ان کی اس روایت کا تعلق ان کے اسلام کے پہلے کے واقعہ سے ہے ۔ انہوں نے یہ تو نہیں کہا کہ اس واقعے کے وقت وہ مسلمان ہوچکے تھے ۔ لہذا ان کے اسلام اور اس روایت کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے ۔ کیونکہ جب حضور ﷺ نے ان کی بات تسلیم نہ کی تو انہوں نے اس وقت اسلام سے اعراض کردیا ۔ (سید قطب)

اس کے بعد جب رسول اللہ ﷺ ان لوگوں کو دیکھتے ان کو سلام کرنے میں پہل فرماتے اور فرماتے ” خدا کا شکر ہے کہ میری امت میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں انہیں پہلے سلام کروں ۔ “

صحیح مسلم میں عائذ ابن عمر کی روایت ہے کہ ابو سفیان آیا اور مجلس میں سلمان ‘ صہیب ‘ بلال ؓ اجمعین اور دوسرے لوگ بیٹھے تھے ۔ ان لوگوں نے کہا : ” خدا کی قسم اللہ کی تلواروں نے خدا کے دشمنوں میں سے جس مقام تک پہنچنا چاہئے تھا نہ پہنچ سکیں ۔ “ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا : تم لوگ یہ ریمارکس شیخ قریش اور ان کے سردار کے بارے میں پاس کررہے ہو ؟ ابوبکر ؓ حضور ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے اس واقعہ کی اطلاع آپ ﷺ کو دی تو حضور ﷺ نے فرمایا : ” تم نے ان کو ناراض تو نہیں کردیا ؟ اگر تم نے ان لوگوں کو ناراض کردیا ہے تو تو نے رب کو ناراض کردیا ہے ۔ “ ابوبکر ؓ فورا ان کے پاس آئے اور ان سے پوچھا ” بھائیو ! کیا تم میری بات سے ناراض تو نہیں ہوگئے ہو ؟ تو انہوں نے کہا :” نہیں تو ‘ بھائی تمہیں اللہ معاف کر دے ۔

ذرا ٹھہرو ‘ یہ غور کا مقام ہے اور اس پر ذرا طویل وقفہ کرو۔ ان آیات پر غور کرو ‘ بلکہ تمام انسانیت کا یہ حق ہے کہ وہ اس مقام پر رکے ار دیر تک غور کرے ۔ ان آیات میں انسان کے خالی خولی حقوق اور چمکدار اصولوں اور اقدار ہی کا تذکرہ نہیں کیا گیا ۔ ان آیات میں جو بات کہی گئی ہے وہ انسانی حقوق سے بھی بہت بلند اور اہم ہے ۔ یہاں ایک عظیم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو عملا لوگوں کی زندگیوں میں موجود ہے اور یہ وہ عظیم انقلاب ہے جو اسلامی نظام حیات نے پوری انسانیت کی زندگی میں عملا برپا کیا ۔ ذرا آسمان انسانیت کے افق پر نگاہ ڈالو ‘ وہ ہے بلند اور باریک لکیر جس تک کبھی یہ انسانیت پہنچی تھی اور کاغذوں پر نہیں ملا وہاں تک پہنچی تھی آج ذرا غور کرو کہ وہی انسانیت اس ریکارڈ مقام سے کس قدر نیچے گر گئی ہے اس لئے کہ انسانیت دین اسلام کی قیادت سے محروم ہوگئی ہے ۔ انسانیت جس قدر بھی گر جائے اس ریکارڈ کی اہمیت اپنی جگہ ہے ۔ اس انقلاب کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے کیونکہ تاریخ کے ایک دور میں انسانیت اس مقام تک پہنچی ہے ۔ یہ ریکارڈ عملا قائم ہوا ہے اور انسان نے یہ خط ایک دن اپنے عمل سے افق انسانیت پر رقم کیا ہے ۔ انسانیت کو چاہئے کہ اس مقام بلند تک دوبارہ پہنچنے کی سعی کرے اس لئے کہ اسلامی انقلاب نے اس چوٹی کو ایک بار سر کیا ہے ۔ دوبارہ اس مقام تک پہنچا جاسکتا ہے ۔ وہ دیکھو افق انسانیت پر مسلمانوں کے نقوش پا موجود ہٰں ۔ اب بھی انسان وہاں تک پہنچ سکتے ہیں ۔ اب بھی دین اسلام موجود ہے ۔ صرف عزم یقین اور اعتماد کی ضرورت ہے ۔

ان آیات کی اہمیت یہ ہے کہ ان میں انسانیت کے اس عظیم سفر کے نقوش پا کو دائما مرتسم کردیا گیا ہے ۔ ان آیات میں اس تاریخی عمل کو ریکارڈ کردیا گیا جس کے ذریعے اسلام نے عربوں کو جاہلیت کی گراٹوں اور گندگیوں سے اٹھا کر اس مقام بلند تک پہنچا دیا تھا اور پھر ان کے ہاتھ میں پوری انسانیت کی قیادت دے دی تھی ۔ انہوں نے اطراف عالم میں پوری انسانیت کو ہاتھ سے پکڑا اور افق انسانیت میں اس ریکارڈ لکیر تک اٹھا دیا جسے کوئی اور نظام تک عبور نہیں کرسکا ۔

انسانیت عموما اور عرب خصوصا جس قعر مذلت میں گرے ہوئے تھے ‘ ان آیات میں اس کا تصور سردار قریش کے ان الفاظ کے اندر بالکل واضح ہے ۔ کہتے ہیں : ” محمد تم نے اپنی قوم میں سے صرف ان لوگوں کو چن لیا ہے ؟ کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو چھوڑ کر ‘ احسان کیا ہے ؟ اور کیا اب ہم ان لوگوں کے مطیع فرمان ہوجائیں ؟ ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ آپ ان لوگوں کو اپنی مجلس سے بھگا دیں ۔ اگر آپ نے انہیں اپنی مجلس سے رخصت کردیا تو امید ہے کہ ہم آپ کی اطاعت کرلیں گے ۔ “ ۔۔۔۔۔ اقرع ابن حابس اور عیینہ ابن حصن فزاری نے جو الفاظ کہے ان میں بھی صاف نظر آتا ہے کہ اس وقت دنیا کس قعر مذلت میں گری ہوئی تھی ۔ یہ لوگ نبی کریم ﷺ کے اصحاب سابقین اولین کے بارے میں اس حقارت آمیز انداز میں کلام کرتے ہیں کہ بلال ‘ صہیب ‘ عمار اور خباب ؓ اجمعین جیسے لوگ دوسرے درجے کے لوگ ہیں۔ ہم آپ کے ساتھ ملاقات کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں یہ پسند نہیں ہے کہ اہل عرب ہمیں ان جیسے ضعفاء اور غلاموں کے ساتھ ایک ہی مجلس میں بیٹھے ہوئے دیکھیں کیونکہ حضور ﷺ کے پاس تو ہر وقت عالم عرب سے وفود آتے رہتے ہیں ۔ ان لوگوں کا موقف یہ تھا کہ ایسے لوگوں کے ساتھ ان کا بیٹھنا ان کے لئے باعث ننگ ہے ۔

اس جگہ جاہلیت کا سیاہ چہرہ بےنقاب ہوجاتا ہے اور اس کی حقیر رسمیں اور کمزور اقدار کھل کر سامنے آجاتی ہیں ۔ قوم ‘ نسب اور مال و دولت کی بنیاد پر قائم ہونے والی عصبیت واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے ۔ ان فقراء میں سے بعض لوگ سرے سے عرب ہی نہ تھے ۔ بعض دوسرے ایسے تھے کہ انکا تعلق وقت کے نام نہاد شرفاء میں سے نہ تھا اور بعض ایسے تھے جو مالدار نہ تھے ۔ یہی وہ اقدار ہیں جن کو دنیا کی ہر جاہلیت نشوونما دیتی ہے ۔ دور جدید کی جاہلیتیں بھی آج تک اس قسم کے تصور قومیت ‘ تصور نسل اور مالی لحاظ سے اٹھنے والے طبقاتی تصور سے بلند نہیں ہو سکیں ۔

یہ ہیں جاہلیت کی گراوٹیں اور پستیاں اور یہ ہے اسلام کی سربلندی اور علو شان ۔ اسلام کی نظر میں ان قومی ‘ نسلی اور طبقاتی نعروں کا کوئی وزن نہیں ہے اور نہ ان پست اور سطحی تصورات کا کوئی اعتبار ہے ۔ اسلام وہ نظام ہے جو آسمان سے نازل ہوا ‘ یہ کوئی ایسا نظام نہیں ہے جو زمین سے اگا ہو۔ اس لئے کہ زمین کے اندر تو پستیاں موجود ہیں اور یہ پستیاں ایسی شور زدہ ہیں کہ ان کے اندر ایسے خیالات کے پودے اگ ہی نہیں سکتے کیونکہ اسلامی پودا نہایت ہی پاکیزہ درخت ہوتا ہے ۔ اسلام کی اطاعت سب سے پہلے محمد رسول اللہ ﷺ کرتے ہیں جو اللہ کے نبی اور رسول ہیں اور جن پر آسمانوں سے وحی آتی ہے ۔ وہ قریش کی ایک سرکردہ شاخ بنی ہاشم کے فرد ہیں ۔ پھر اسلام کی اطاعت حضرت ابوبکر ؓ کرتے ہیں ‘ جو حضور ﷺ کے ساتھی ہیں۔ یہ حضرات سب سے پہلے ان غلاموں کے بارے میں ان زیردستوں کے بارے میں اسلامی ہدایات پر عمل کرتے ہیں ۔ یہ غلام اور زیردست وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے سوا تمام غلامیوں کا جو اپنی گردن سے اتار پھینکا ہے صرف اللہ کے غلام بن گئے ہیں اور صرف اللہ کے غلام ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بارے میں مذکورہ بالا انقلابی ہدایات آئیں ۔

جس طرح قریش کے ان سرداروں کی باتوں میں جاہلیت کی پستیاں عیاں ہیں اور اقرع اور عیینہ کی ذہنیت میں یہ گراوٹیں نمایاں ہیں اس طرح کلام الہی کے اس حصے میں بھی علو شان عیاں ہے ۔ حضور ﷺ کو ان الفاظ میں ہدایات دی جاتی ہیں ۔ ذرا دوبارہ غور کیجئے ۔

(آیت) ” وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّہُم بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُونَ وَجْہَہُ مَا عَلَیْْکَ مِنْ حِسَابِہِم مِّن شَیْْء ٍ وَمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْْہِم مِّن شَیْْء ٍ فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُونَ مِنَ الظَّالِمِیْنَ (52) وَکَذَلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لِّیَقُولواْ أَہَـؤُلاء مَنَّ اللّہُ عَلَیْْہِم مِّن بَیْْنِنَا أَلَیْْسَ اللّہُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاکِرِیْنَ (53) وَإِذَا جَاء کَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِآیَاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَیْْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ أَنَّہُ مَن عَمِلَ مِنکُمْ سُوء اً بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِہِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ(54)

جو لوگ اپنے رب کو رات دن پکارتے رہتے ہیں اور اس کی خوشنودی کی طلب میں لگے ہوئے ہیں انہیں اپنے سے دور نہ پھینکو ۔ ان کے حساب میں سے کسی چیز کا بار تم پر نہیں ہے اور تمہارے حساب میں سے کی چیز کا بار ان پر نہیں ۔ اس پر بھی اگر تم انہیں دور پھینکو گے تو ظالموں میں شمار ہو گے ۔ دراصل ہم نے اس طرح ان لوگوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعے آزمائش میں ڈالا ہے ۔ تاکہ وہ انہیں دیکھ کر کہیں ” کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر ہمارے درمیان اللہ کا فضل وکرم ہوا ہے ؟ ہاں ! کیا خدا اپنے شکر گزار بندوں کو ان سے زیادہ نہیں جانتا ہے ؟ جب تمہارے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو ان کو کہو ” تم پر سلامتی ہے ۔ تمہارے رب نے رحم وکرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کرلیا ہے ۔ (یہ اس کا رحم وکرم ہی ہے کہ) اگر تم میں سے کوئی نادانی کے ساتھ کسی برائی کا ارتکاب کر بیٹھا ہو پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کرلے تو وہ اسے معاف کردیتا ہے اور نرمی سے کام لیتا ہے۔ “

اسلام کی یہ سربلندی اس روپے سے عیاں ہوتی ہے جو حضور ﷺ نے ان غلاموں کے ساتھ اختیار کیا جس کے بارے میں اللہ نے نبی کو حکم دیا کہ آپ ان کو سلام کرنے پہلے کریں اور جب وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے ہوں تو اس وقت تک انتظار کریں جب تک وہ خود اتھ نہیں جاتے حالانکہ حضور محمد ابن عبد اللہ ابن ہاشم تھے ‘ اس کے سوا آپ پیغمبر خدا تھے اور خیرالخلائق تھے اور ان لوگوں کے سرخیل تھے جن کی وجہ سے انسانیت اور زندگی کو شرف نصیب ہوا ۔

ان غلاموں کی ذہنیت سے بھی اسلامی نظریہ حیات کی سربلندی عیاں ہے ۔ وہ اللہ کے ہاں اپنے مرتبے کا احساس رکھتے ہیں ۔ وہ اللہ کی راہ میں چلنے والی تلواروں کے کام اور فرائض کے بارے میں بھی احساس رکھتے ہیں کہ یہ اللہ کی تلواریں ہیں ۔ ابو سفیان قریش کا شیخ اور سردار ہے اور وہ اسلامی صفوں میں اس لئے پیچھے رہ گیا کہ وہ فتح مکہ کے بعد عام معافی کے نتیجے میں ایمان لایا ، یہ غلام اس لئے پہلی صفوں میں چلے گئے کہ انہوں نے مشکل دور میں دعوت اسلامی پر لبیک کہا اور شدید ابتلا میں ڈالے گئے ۔ جب حضرت ابوبکر ؓ نے انہیں ابو سفیان کے معاملے میں ڈانٹا تو حضور ﷺ نے انہیں سخت متنبہ کیا اور کہا کہ تم نے ان لوگوں کو غصہ تو نہیں دلایا ۔ اگر تم نے انہیں ناراض کیا ہے تو گویا تم نے اللہ کو ناراض کردیا ہے ۔ آج کے دور میں ہمارا کوئی تبصرہ یہاں تک نہیں پہنچ سکتا ۔ ہم تو صرف سادہ الفاظ میں اس واقعہ کو نقل کرسکتے ہیں ۔ حضرت ابوبکر ؓ فورا اٹھ کر ان کے پاس واپس جاتے اور پوچھتے ہیں ” بھائیو ! تم ناراض تو نہیں ہوگئے ہو ۔ “ وہ جواب دیتے ہیں ” نہیں بھائی ‘ اللہ تمہاری مغفرت کرے ۔ “

یہ کس قدر حیران کن واقعہ ہے جو انسانی تاریخ میں رونماہوا ؟ یہ کس قدر عظیم انقلاب تھا جو انسانی زندگی میں رونما ہوا ؟ جس کے اندر اقدار بدل گئیں ‘ طور طریقے بدل گئے ۔ لوگوں کا شعور بدل گیا اور ان کے خیالات بدل گئے اور یہ تمام تغیرات آنا فانا واقع ہوئے جبکہ علاقے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ۔ لوگ بدل نہیں گئے تھے اور اقتصادی نظام جوں کا توں تھا ۔ نظریات کے سوا تمام حالات زندگی جوں کے توں تھے ۔ بس آسمان سے ایک پیغام آیا ‘ وہ ایک بشر پر آیا ‘ یہ صرف اللہ کی حاکمیت کا پیغام تھا ۔ انسانی فطرت تہ بہ تہ آلودگیوں میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ لوگ جاہلیت کی پستیوں میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ اس پیغام لانے والے نہیں پکارا ‘ اس پکار کی وجہ سے ان کی قوتوں نے جوش مارا اور اس جوش میں وہ پستیوں سے اٹھ کر بلند ترین چوٹیوں پر چڑھ گئے ۔ یہ برتری انہیں صرف اسلام کی برکت سے نصیب ہوئی ۔

پھر تاریک نے دیکھا کہ یہ لوگ ان بلندیوں سے پستیوں میں جا جا کر گرنے لگے ۔ اور آخر کار دوبارہ پستیوں تک پہنچ گئے ، آج نام نہاد تہذیب کے مراکزواشنگٹن ‘ نیویارک ‘ شکاگو اور جو ہانسبرگ وغیرہ میں یہ گندی عصبیتیں دوبارہ عروج پر ہیں ۔ رنگ اور نسل کے اساس پر آج پھر لوگوں نے عصبیتوں کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔ کہیں وطنیت کا فتنہ ہے ‘ کہیں قومیت کا چرچا ہے ‘ کہیں طبقاتی جنگ برپا ہے اور ان جاہلیتوں کی گندگی جاہلیت عربیہ سے کچھ کم بدبودار نہیں ہے ۔

لیکن اسلامی نظام حیات آج بھی سرفراز ہے ۔ اس کے عروج کا خط آج بھی افق انسانیت پر ریکارڈ ہے ۔ آج بھی انسانیت کے لئے یہ نظام رحمت ہے اور امید کی کرن ہے کہ شاید دوبارہ انسانیت اس مقام تک اس کی قیادت میں پہنچ جائے اور اس گندے اور بدبودار تبخیر سے نکل آئے ۔ اس کی آنکھیں اور نظریں اوپر کو اٹھیں ۔ وہ دوبارہ اس ریکارڈ خط تک پہنچنے کی سعی کرے ۔ شاید وہ دوبارہ یہ میٹھی آواز سن سکے اور داعی اسلام کی حدی خوانی سے وجد میں آجائے اور اسلامی نقوش راہ پر چل کر دو بار اس بلند ترین ٹارگٹ تک جا پہنچے ۔

اس تفسیر میں ہم نے جو انداز اختیار کیا ہے اس کی وجہ سے ان اجمالی اشارات سے آگے ہم نہیں جاسکتے ۔ جس قدر وقفہ ہم نے کرلیا اب اس سے زیادہ نہیں رک سکتے تاکہ ہم تمام انسانیت کو دعوت دے سکیں کہ وہ ان آیات پر غور کرے اور دیکھے کہ پوری انسانی تاریخ کے اندر یہ واقعہ کس قدر روشن اور چمکدار ہے ۔ اس کے اندر انسانیت نے نہایت ہی پستیوں سے اسلامی نقوش راہ پر چلتے ہوئے بلندی حاصل کی اور وہ بلندیوں میں بہت دور تک جانکلی ۔ کس طرح آج کی مادی اور بےدین تہذیب کی قیادت میں وہ دوبارہ گری اور اب اس کی حالت یہ ہے کہ انسانیت ایک ایسا جسم ہے جس میں کوئی روحانیت نہیں ہے ۔ انسان ہیں مگر وہ نظریہ حیات سے محروم ہیں ۔ یہ بھی معلوم کرلیں اسلام میں کس قدر صلاحیت ہے کہ وہ دوبارہ قائدانہ مقام حاصل کرسکتا ہے ۔ خصوصا تاریخ کے ایسے موڑ پر جبکہ تمام تجربے ‘ تمام مکاتب فکر ‘ تمام طرز ہائے حیات ‘ تمام نظامہائے زندگی ‘ تمام تصورات حیات اور تمام افکار ‘ جو انسانوں کے خود ساختہ تھے اور جن میں دین اسلام سے ہدایت نہ اخذ کی گئی تھی وہ زندگی کے مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئے ہیں ۔ یہ تمام افکار انسانی زندگی کو اس سربلندی تک یہ پہنچا سکے جس تک اسلامی نظام نے اسے پہنچایا تھا ۔ یہ تمام تصورات انسانیت کو عزت واحترام کا وہ مقام نہ دلا سکے جو اسے اسلام کے زیرسایہ نصیب ہوا ۔ انسانوں کو وہ اطمینان نہ دلا سکے جو اسلام نے انہیں عطا کیا ۔ خصوصا وہ انقلاب جو اسلامی نظام نے عربوں میں رونما کیا ‘ بغیر اس کے کہ لاکھوں انسانوں کو ذبح کیا جائے ‘ بغیر اس کے کہ کروڑوں پر تشدد کیا جائے ‘ بغیر اس کے کہ لوگوں کو بغیر مقدمہ چلائے کیمپوں میں بند رکھا جائے ‘ بغیر تشدد ‘ بغیر بےچینی ‘ بغیر ایذا رسانی ‘ بغیر بھوک اور بغیر فقر اور بغیر ان انقلابات کے جن کی زد میں انسانیت آتی رہتی ہے اور جس میں کچھ لوگ دوسروں کو جسمانی یا روحانی طور پر غلام بنا لیتے ہیں ۔ اللہ کی غلامی کے سوا اور غلامیاں راسخ ہوجاتی ہیں ۔

میں سمجھتا ہوں یہاں اسی قدر کلام کافی ہے اور یہ آیات بذات خود جو گہرے اثرات نفس انسانی پر چھوڑتی ہیں وہ کسی تشریح کے محتاج نہیں ہیں۔ (مزید تشریح کے لئے پارہ 30 میں سورة عبس کی تشریح ملاحظہ فرمائیں)