6:48 6:49 আয়াতের গ্রুপের জন্য একটি তাফসির পড়ছেন
وَمَا
نُرْسِلُ
الْمُرْسَلِیْنَ
اِلَّا
مُبَشِّرِیْنَ
وَمُنْذِرِیْنَ ۚ
فَمَنْ
اٰمَنَ
وَاَصْلَحَ
فَلَا
خَوْفٌ
عَلَیْهِمْ
وَلَا
هُمْ
یَحْزَنُوْنَ
۟
وَالَّذِیْنَ
كَذَّبُوْا
بِاٰیٰتِنَا
یَمَسُّهُمُ
الْعَذَابُ
بِمَا
كَانُوْا
یَفْسُقُوْنَ
۟

(آیت) ” نمبر 48۔ 49۔

دین اسلام کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو ذہنی اور عقلی بلوغ تک پہنچائے اور انہیں اس قابل بنائے کہ وہ اس عظیم قوت کو کام میں لا کر فائدہ اٹھائیں جو اللہ نے صرف انسان کو دی ہے اور اسے پوری طرح اس سچائی کے سمجھنے میں استعمال کریں جو اس کائنات کے صفحات میں موجود ہے ۔ خود زندگی کے طور طریقوں کے اندر موجود ہے اور انسان کی تخلیق کے رازوں میں پوشیدہ ہے ۔ یہ راز قرآن مجید نے سب سے پہلے انسانوں پر کھولے اور انسان کی قوت مدرکہ کو ان کی طرف متوجہ کیا ۔

یہ وجہ ہے کہ لوگوں کو حسی خارق عادت معجزات سے نکال کر عقلی میدان میں داخل کیا گیا ۔ حسی معجزات کے نتیجے میں انسان یقین کرنے پر مجبور تو ہوجاتا ہے لیکن اصل حقیقت اس کی سمجھ میں نہیں آتی ۔ انسان کی گردن ظاہری خارق عادت واقعہ کے سامنے جھک جاتی ہے ۔ اس کے مقابلے میں دین اسلام نے عقل انسانی کو اس طرف متوجہ کیا کہ وہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی کاریگریوں کا مطالعہ کرے اور انہیں سمجھنے کی سعی کرے ۔ اس لئے کہ اس کائنات کی راز بذات خود معجزات ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ یہ معجزات ہر وقت ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ اور ان کے صدور پر یہ کائنات قائم ہے اور اس کے عناصر ترکیبی انہیں قدرتی بوقلمونیوں پر مشتمل ہیں ۔ اسلام نے انسان کو یہ قوت مدرکہ اور یہ ملکہ بذریعہ کتاب الہی عطا کیا ۔ اپنے انداز بیان اور طرز تعبیر کے اعتبار سے یہ کتاب معجز ہے ۔ اس کا اسلوب بھی معجزے اور اس کی اجتماعی ساخت اور متحرک انداز بیاں اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ اس کی ساخت بےمثال ہے اور قرآن کے نزول کے بعد آج تک اس کی کوئی مثال نہیں لائی جاسکی ۔

انسان کو عقلی بلوغ کے مقام تک پہنچانے کے لئے طویل تربیت اور مسلسل ہدایت کی ضرورت تھی تاکہ انسان کی قوت مدرکہ کہ اندر یہ مطلوب عظیم انقلاب رویہ عمل لایا جاسکے ‘ اور انسانیت ترقی کے مقام بلند تک پہنچ سکے اور انسان خود اپنی قوت مدرکہ کے ساتھ اس کائنات اور موجودات کے اس مسلسل سفر کو سمجھ سکے ۔ لیکن قرآنی ہدایات کی روشنی میں قرآنی ضابطوں کے اندر رہتے ہوئے اور نبی کریم ﷺ کی سنت کی روشنی میں انسان سفر کائنات کو مثبت واقعیت سے اور اچانک ایک مختصر عرصے میں سمجھ سکے اور اس کی یہ سمجھ اور اس کا یہ ادراک ان فلسفوں کے تصور اور ادراک سے بالکل مختلف ہو جو اس وقت رائج تھے ۔ مثلا یونانی اور مسیحی لاہوتی فلسفے یا محض حسی اور مادی تصور کائنات جو اس دور میں ہندی ‘ مصری ‘ مجوسی اور بودھ فلسفوں کی شکل میں رائج تھے اور انسانوں کو رنگ وبو کے اس محدود دائرے سے بھی نکال دے جو نزول قرآن کے وقت عربوں میں عام تھے ۔

یہ ہدایت وتربیت حضرت رسول اللہ ﷺ کے فرائض میں سے تھی اور جس طرح ان دو آیات کے اندر اس کی وضاحت کی گئی کہ رسول اللہ ﷺ کا اصل کردار یہ تھا ۔ اس کی مزید تشریح اگلی لہر میں بھی آپ دیکھیں گے ۔ خلاصہ یہ کہ رسول انسان ہوتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ دنیاوالوں کی طرف اس لئے بھیجتے ہیں کہ وہ انہیں اچھے انجام کی خوشخبری دے اور برے انجام سے ڈرائے ، ان امور پر اس کا فریضہ رسالت ختم ہوجاتا ہے ۔ اب آگے لوگوں کا فریضہ شروع ہوجاتا ہے کہ وہ رسول کی دعوت کو قبول کریں ۔ لوگوں کی جانب سے قبولیت اللہ کی مشیت کے دائرے کے اندر ہوتی ہے اور اس دعوت کے مقابلے میں جو شخص جو رویہ بھی اختیار کرے گا اس پر جزا ملے گی یا سزا ہوگی ۔ لہذا جو ایمان لے آئے اور ایسے نیک کام کرے جن سے اس کے ایمان کا اظہار ہو تو اس کا انجام اطمینان بخش ہوگا اور وہ کسی خوف سے دوچار نہ ہوگا نہ اسے بےاطمینانی ہوگی ۔ جن لوگوں نے ان آیات کو جھٹلایا جو رسول لے کر آتا ہے اور جن کے اشارات کتاب کائنات کے اندر موجود ہوتے ہیں تو وہ لوگ عذاب سے دوچار ہوں گے ۔ اور یہ عذاب اور سزا ان کو ان کی اس تکذیب کیوجہ سے دی جائے گی اور اس کی تعبیریوں کی گئی بما کانوا یفسقون (اس وجہ سے کہ انہوں نے فسق اختیار کیا تھا جس سے مراد کفر ہے) ۔ قرآن کریم میں اکثر مقامات پر شرک پر ظلم کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے اور کفر پر فسق کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے ۔

یہ ایک نہایت ہی واضح اور سیدھا سادا تصور ہے جس کے اندر کوئی پیچیدگی نہیں ہے ۔ رسول کے مقام اور اس کے فرائض کے بارے میں یہ ایک واضح نشاندہی ہے کہ دین میں رسول کا کیا مقام وحیثیت ہے اور اس کے فرائض کیا ہیں ؟ یہ ایک ایسا تصور ہے کہ جس کے مطابق مقام الوہیت صرف اللہ کے لئے مخصوص ہے ‘ اپنے تمام خصائص کے ساتھ اور تمام کاموں کو اللہ کی تقدیر اور فیصلوں پر موقوف کردیا جاتا ہے ۔ اللہ کی تقدیر اور مشیت کے دائرے کے اندر انسان کو سوچ اور فیصلے کی آزادی بھی دی گئی ہے اس وجہ سے انسان مسئول ہوجاتا ہے اور جزاء وسزا کے نتائج اس کے اعمال پر مرتب ہوتے ہیں ۔ اس واضح تصور سے ان پیچیدہ تصورات کی مکمل نفی ہوجاتی ہے جو بعض لوگوں میں رسولوں کی شخصیت اور طبیعت کے بارے میں غلط فلسفوں کے نتیجے میں رائج ہیں یا دور جاہلیت میں رائج تھے جو یہ توقع کرتے تھے کہ اگر رسول برحق ہے تو معجزے کیوں نہیں لاتا ؟ اور لوگ اس کے مطیع فرمان کیوں نہیں ہوتے ؟ یوں اسلام نے انسان کو عقلی بلوغ کے دور میں داخل کیا اور نہایت ہی سادہ انداز میں ‘ بغیر اس کے کہ وہ پیچیدہ ذہنی اور فلسفیانہ تصورات میں گم ہو ‘ یا لاہوتی جدلیات و مباحث میں پڑ کر اپنی قوت مدرکہ کو ضائع کرے جس طرح قرون مظلمہ میں ہوتا رہا ہے ۔

درس نمبر 61 ایک نظر میں :

اس لہر میں حقیقت رسالت کے بیان کا باقی حصہ دیا گیا ہے ۔ مشرکین عرب کو یہ سمجھایا جارہا ہے کہ رسالت کی حقیقت کیا ہوتی ہے اور رسول کا مزاج کیا ہوتا ہے اور یہ حقیقت ان کو سمجھانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ یہ لوگ رسول اکرم ﷺ سے خارق عادت معجزات کا مطالبہ کرتے تھے ۔ سابقہ لہر میں ان کا تذکرہ ہوچکا ہے ۔ یہاں رسالت کے بارے میں ان کے جو جاہلانہ تصورات تھے ان کی مزید درستی کی جارہی ہے ۔ خصوصا یہ وضاحت کردی جاتی ہے کہ رسول بشر ہوتے ہیں اور تمام رسول بشر ہی گزرے ہیں اس لئے کہ عربوں اور انکے اردگرد پھیلی ہوئی جاہلیتوں کے اندر حقیقت رسالت کے بارے میں بہت کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی تھیں ۔ ان تصورات کی وجہ سے یہ لوگ حقیقت رسالت حقیقت وحی اور حقیقت نبوت اور ذات رسل کے بارے میں جادہ حق سے بہت دور نکل چکے تھے اور تمام لوگ خرافات اور قصے کہانیوں کی دنیا میں داخل ہو کر گمراہ ہوچکے تھے ۔ انہوں نے نبوت اور رسالت کو سحر اور جادوگری سے ملا دیا تھا ۔ وحی کو وہ جنون سے بھی تعبیر کرتے تھے ۔ ان کا عقیدہ یہ ہوتا تھا کہ رسول غیب کی خبریں دیا کرتا ہے ۔ رسول وہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ سے خوارق اور معجزات صادر ہوتے ہیں اور اسے وہ کام کرنے چاہئیں جو جنات کے عامل اور جادوگر کیا کرتے ہیں ۔ جب اسلامی نظریہ حیات آیا تو اس نے باطل عقائد پر بمباری کرکے باطل کا سر پھوڑ کر رکھ دیا اور ایمان کو اس کی سادگی ‘ واقعیت ‘ سچائی اور اس کی وضاحت لوٹا کر دے دی ۔ یوں ایک نبی کی سچی تصویر سامنے آئی اور نبوت کا واضح تصور دنیا نے پایا اور تمام خرافات اور قصے کہانیوں اور وہمی دیومالائی تصورات سے انسان نے نجات پائی جو اس وقت دنیا پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے ۔ مشرکین کے ہاں رائج تصورات وہ تھے جو ان کے قرب و جوار میں یہودیوں اور عیسائیوں کے اندر بالعموم پائے جاتے تھے ۔ ان دونوں ملتوں کے اندر بھی بہت سی شاخیں اور فرقے تھے ۔ لیکن تمام فرقوں کے اندر حقیقت نبوت کو بگاڑنا قدر مشترک تھی ۔

اس لہر میں حقیقت رسالت اور حقیقت رسول ﷺ کو باطل ادہام و خرافات سے پاک وصاف کر کے پیش کرنے کے بعد اب اسلامی نظریہ حیات کو بھی نہایت ہی سادہ انداز میں پیش کردیا جاتا ہے ۔ اسے بغیر کسی مبالغہ اور بغیر کسی بناوٹ کے اپنے سادہ اور حقیقی خدوخال کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ جو اس نظریہ کے پیش کرنے والے ہیں وہ بھی تو انسان ہیں ۔ ان کے پاس دنیا کے خزانے نہیں ہیں ۔ وہ غیب کا علم نہیں رکھتے ‘ نہ ان کا یہ دعوی ہے کہ وہ فرشتے ہیں ۔ وہ تو صرف اپنے رب کی طرف سے ہدایات اخذ کرتے ہیں اور صرف اسی کے حکم کا منبع ہیں ۔ ان کے پاس سارا علم بذریعہ وحی رب کی طرف سے ان کے پاس آجاتا ہے ۔ جو لوگ آپ کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں وہ لوگوں کے نزدیک نہایت ہی مکرم ہیں ۔ اس لئے رسول کا بھی فرض ہے کہ وہ انہیں اپنے ساتھ جوڑے رکھے اور ان کا خیر مقدم کرے ۔ انہیں یہ خوشخبری دے کہ اللہ نے اپنے اوپر یہ فرض کرلیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ نہایت ہی رحیمانہ سلوک کرے گا ۔ نیز رسول کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ان لوگوں کو ڈرائے جن کے دلوں کے اندر خوف خدا موجود ہے اور جو آخرت کی جوابدہی کے قائل ہیں تاکہ وہ خدا خوفی کے اعلی مقام تک پہنچ جائیں ۔ بس یہی ہے رسول اللہ کا فریضہ اور اس کی ڈیوٹی اور اس کی حقیقت دو لفظوں کے اندر منحصر ہے ۔ ” بشریت “ اور ” اخذوحی “ ان دو لفظوں کے اندر رسول کی حقیقت بھی بیان کردی گئی اور رسول کے فرائض منصبی کے حدود کا بھی تعین کردیا گیا ۔ فکر کی اس درستی اور انجام بد کی نشاندہی کے ساتھ ہی مجرمین کی راہ میں بھی متعین ہوجاتی ہے اور مومنین اور مجرمین کی راہیں ایک دوسرے سے جدا ہوجاتی ہیں ۔ حق و باطل ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں اور حقیقت رسول اور منصب رسالت کے بارے میں تمام ادہام و خرافات کا رد ہوجاتا ہے ۔ نہایت ہی واضح طور پر مومنین اور غیر مومنین کے درمیان لکیر کھینچ جاتی ہے ‘ کھلے طور پر ۔

ان حقائق کی وضاحت کے ساتھ ساتھ مقام الوہیت کے بعد پہلو بھی لوگوں کے سامنے رکھ دیئے جاتے ہیں ۔ رسول خدا اور خدا کے درمیان تعلق کی نوعیت بھی بتا دی جاتی ہے ۔ نیز رسول اور اس کے متبعین اور اس کے مخالفین کے ساتھ اس کے تعلق کی حدود اور نوعیت کا بھی تعین کردیا جاتا ہے ۔ یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ متبعین کا رنگ ڈھنگ کیا ہوتا ہے اور گمراہوں کے طور طریقے کیا ہوتے ہیں ۔ جو لوگ ہدایت پانے والے ہیں وہ آنکھوں والے ہوتے ہیں اور جو گمراہ ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ اللہ نے اپنے اوپر اپنے مومن بندوں کے لئے رحمت فرض کردی ہے اور اگر ان میں سے کوئی تائب ہوجائے تو اللہ اسے ضرور معاف فرماتے ہیں ‘ اگرچہ انہوں نے معاصی کا ارتکاب کیا ہو ‘ بشرطیکہ یہ ارتکاب انہوں نے جہالت کی وجہ سے کیا ہو اور توبہ کے بعد وہ اصلاح کی راہ اپنائیں ۔ نیز اللہ مجرموں کی روش کو اچھی طرح واضح کرنا چاہتے ہیں ۔ لہذا جو بھی ایمان لاتا ہے وہ علی وجہ البصیرت ایمان لائے اور جو گمراہ ہوتا ہے وہ بھی علی وجہ البصیرت گمراہ ہو۔ ہر شخص جو موقف بھی اختیار کرے ، سوچ کر کرے ۔ کسی غلط فہمی اور کسی گمان وتخمین کی بنیاد نہ ہو۔