قُلْ
اَرَءَیْتَكُمْ
اِنْ
اَتٰىكُمْ
عَذَابُ
اللّٰهِ
بَغْتَةً
اَوْ
جَهْرَةً
هَلْ
یُهْلَكُ
اِلَّا
الْقَوْمُ
الظّٰلِمُوْنَ
۟

(آیت) ” نمبر 47۔

ظالموں کو عذاب الہی ہر صورت میں پکڑتا ہے ۔ یہ اچانک بھی آتا ہے جبکہ وہ غفلت میں ہوتے ہیں اور انہیں کوئی توقع نہیں ہوتی اور کبھی ان پر یہ عذاب اعلانیہ آتا ہے اور وہ اس کے لئے پوری طرح تیار بھی ہوتے ہیں ‘ لیکن ظالم اقوام پر تباہی آکر رہتی ہے ۔ (یہ بات یاد رہے کہ قرآن کریم کی تعبیرات کے مطابق ظالمین سے مراد مشرکین ہیں) جب یہ عذاب آتا ہے چاہے اچانک آئے یا اعلانیہ تو پھر اس کے مقابلے میں وہ کوئی بچاؤ نہیں کرسکتے اس لئے کہ عذاب الہی کے مقابلے میں وہ اس قدر ضعیف ہیں کہ وہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ نہ ان کے بنائے ہوئے شریک اس عذاب کو روک سکتے ہیں اس لئے کہ جن لوگوں کو یہ لوگ شریک بناتے ہیں وہ تو اللہ کے ضعیف بندے ہیں ۔

یہ ایک متوقع صورت حالات ہے جو قرآن کریم ان کے سامنے اس موثر انداز میں پیش کرتا ہے تاکہ یہ لوگ اس صورت حال سے ڈر جائیں اور اپنا بچاؤ کرلیں اور اس صورت حالات کے وقوع کے اسباب فراہم کرنے سے باز رہیں ۔ یہ متوقع صورت حال اللہ نے ان لوگوں کے سامنے اس لئے پیش فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ خود انسانی فطرت کے اندر تقوی موجود ہے اور ایسی صورت حالات کے تصور ہی سے انسان کانپ اٹھتا ہے ۔

اب جب یہ لہر ساحل کے قریب پہنچ جاتی ہے اور اس کے اندر ایک دوسرے کے بعد اٹھنے والے مناظر دکھائے جاسکتے ہیں اور موثر ہدایات دی جا چکتی ہیں اور ان ہدایات کے تاثرات سامعین اور ناظرین کے قلوب کی تہہ تک اتر جاتے ہیں تو اب حضرت نبی اکرم ﷺ اور دوسرے رسولوں کے فرائض نبوت کا تعین کردیا جاتا ہے ۔ یہ تعین اس لئے کیا جاتا ہے کہ رسولوں سے انکی اقوام کے لوگ خارق عادت معجزات کا مطالبہ کرتے تھے ۔ بتایا جاتا ہے کہ رسول تو صرف مبلغ ہوتے ہیں ‘ خوشخبری دیتے ہیں اور انجام بد سے ڈراتے ہیں ۔ اس فریضہ کی ادائیگی کے بعد اب لوگ خود مختار ہوتے ہیں کہ وہ جو راہ چاہیں اختیار کریں ۔ ان کے اس اختیار تمیزی کے اوپر پھر سزا وجزاء مرتب ہوگی ۔