6:37 6:39 আয়াতের গ্রুপের জন্য একটি তাফসির পড়ছেন
وَقَالُوْا
لَوْلَا
نُزِّلَ
عَلَیْهِ
اٰیَةٌ
مِّنْ
رَّبِّهٖ ؕ
قُلْ
اِنَّ
اللّٰهَ
قَادِرٌ
عَلٰۤی
اَنْ
یُّنَزِّلَ
اٰیَةً
وَّلٰكِنَّ
اَكْثَرَهُمْ
لَا
یَعْلَمُوْنَ
۟
وَمَا
مِنْ
دَآبَّةٍ
فِی
الْاَرْضِ
وَلَا
طٰٓىِٕرٍ
یَّطِیْرُ
بِجَنَاحَیْهِ
اِلَّاۤ
اُمَمٌ
اَمْثَالُكُمْ ؕ
مَا
فَرَّطْنَا
فِی
الْكِتٰبِ
مِنْ
شَیْءٍ
ثُمَّ
اِلٰی
رَبِّهِمْ
یُحْشَرُوْنَ
۟
وَالَّذِیْنَ
كَذَّبُوْا
بِاٰیٰتِنَا
صُمٌّ
وَّبُكْمٌ
فِی
الظُّلُمٰتِ ؕ
مَنْ
یَّشَاِ
اللّٰهُ
یُضْلِلْهُ ؕ
وَمَنْ
یَّشَاْ
یَجْعَلْهُ
عَلٰی
صِرَاطٍ
مُّسْتَقِیْمٍ
۟

(آیت) ” نمبر 37 تا 39۔

حضرت محمد ﷺ سے یہ لوگ ایسے خوارق عادت معجزات کے طلبگار تھے ‘ جو آپ سے قبل آنے والے رسولوں کو دیئے گئے تھے ۔ یہ لوگ قرآن کریم جیسے زندہ معجزے پر اکتفا کرنے والے نہ تھے ‘ جو قیامت تک کے لئے باقی ہے ‘ انسانی فہم وادراک کو اپیل کرتا ہے اور یہ اعلان کرتا ہے کہ اب انسان فکری اعتبار سے بلوغ تک پہنچ گیا ہے ۔ اس لئے انسان کو ایسے فلسفیانہ اور بلند کلام کے ذریعے مخاطب کیا جاتا ہے اور یہ کلام ایسا لازوال اور ابدی کلام ہے کہ کسی نسل کے ساتھ اس کا خاتمہ نہیں ہوجاتا بلکہ دائم و باقی ہے اور قیامت تک انسانی شعور اور ادراک سے مخا طب ہے ۔

یہ لوگ خارق عادت معجزے کے تو طلبگار تھے لیکن ایسے معجزات کے صدور کے بعد سنت الہی کے مطابق جو عذاب آتا ہے اسے سمجھ نہیں پا رہے تھے ۔ اس عذاب کی لپیٹ میں سب لوگ آجایا کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کو دنیا میں ہلاک کردیا جاتا ہے ۔ نیز یہ لوگ اس حکمت کو بھی نہ پا رہے تھے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ایسے معجزے کا صدور نہ فرمایا ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ اگر معجزہ صادر بھی ہوجائے تو بھی یہ لوگ ماننے والے نہ تھے ۔ حضور ﷺ سے قبل کوئی اقوام نے یہ حرکت کی تھی اور وہ ہلاکت کی مستحق ہوگئی تھیں ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ ان لوگوں کو مہلت دی جائے اور ان لوگوں میں سے کئی ایسے تھے جن کی قسمت میں ایمان لانا لکھا تھا ۔ اگر کوئی شخص ان میں سے ایمان نہ بھی لایا تو اللہ کے علم میں یہ بات تھی کہ اس کی پشت سے امت مومنہ پیدا ہونے والی ہے ۔ لیکن یہ لوگ اس مہلت پر خدا کا شکر ادا نہیں کرتے کہ اللہ نے خود ان کے مطالبے کے باوجود انہیں اس ابتلاء سے بچایا جبکہ وہ اس مطالبے کے عواقب سے بیخبر تھے ۔

قرآن کریم ان کے اس مطالبے کے تذکرے کے بعد یہ فیصلہ کرنا ہے کہ یہ لوگ بےعلم ہیں اور یہ لوگ ان نتائج سے بیخبر ہیں جو ان کے مطابلے کے پورے ہوجانے کے بعد ظہور پذیر ہونے والے تھے ۔ حکم ہوتا ہے کہ اللہ کی قدرت میں ہے ہر قسم کے معجزات کا صدور ‘ لیکن اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ ان لوگوں کو مطالبے کے باوجود ان مشکلات اور ہلاکتوں سے دو چار نہ کیا جائے ۔ یہ ان کی رحمت کا بھی تقاضا ہے کہ اس نے اپنے اوپر رحمت کرنا فرض کرلیا ہے ۔

(آیت) ” وَقَالُواْ لَوْلاَ نُزِّلَ عَلَیْْہِ آیَۃٌ مِّن رَّبِّہِ قُلْ إِنَّ اللّہَ قَادِرٌ عَلَی أَن یُنَزِّلٍ آیَۃً وَلَـکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لاَ یَعْلَمُونَ (37)

” یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نبی پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتاری گئی ؟ کہو ‘ اللہ تعالیٰ نشانی اتارنے کی پوری قدرت رکھتا ہے ‘ مگر ان میں سے اکثر لوگ نادانی میں مبتلا ہیں ۔

اس انتباہ کے بعد اب سیاق کلام قرآن کریم کو ایک نہایت ہی لطیف راستے سے مخاطب کے دل میں اتارنے کی راہ تلاش کرتا ہے ۔ انسان کی قوت مشاہدہ اور قوت تدبر کو جگایا جاتا ہے کہ ذرا وہ اس کائنات پر غور وفکر کرے کہ اس کے اندر پائے جانے والے دلائل ایمان پر غور کرے ۔ اگر وہ غور وفکر کرے تو اسے بہت کچھ معلوم ہو سکتا ہے ۔

(آیت) ” وَمَا مِن دَآبَّۃٍ فِیْ الأَرْضِ وَلاَ طَائِرٍ یَطِیْرُ بِجَنَاحَیْْہِ إِلاَّ أُمَمٌ أَمْثَالُکُم مَّا فَرَّطْنَا فِیْ الکِتَابِ مِن شَیْْء ٍ ثُمَّ إِلَی رَبِّہِمْ یُحْشَرُونَ (38)

” زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو ‘ یہ سب تمہاری ہی طرح کی انواع ہیں ‘ ہم نے ان کی تقدیر کے نوشتے میں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ‘ پھر یہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جاتے ہیں ۔ “

اس کائنات میں صرف انسان ہی نہیں بستے تاکہ ہم یہ کہیں کہ بس اتفاقا وہ وجود میں آگئے اور اب ان کی زندگی بھی جس طرح وہ چاہیں بسر ہو اور لغو جائے ۔ بلکہ انسان کے ارد گرد دوسری جاندار مخلوقات بھی ہوتی ہیں اور ان تمام جانداروں کی زندگی ایک خاص منظم طریقے سے بسر ہو رہی ہے ۔ ان کی زندگی کے مطابعے سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ زندگی بامقصد ایک اسکیم کے مطابق اور حکیمانہ انداز میں بسر ہو رہی ہے اور تمام مخلوقات کی زندگی کے مطالعے سے یہ حقیقت بھی آشکارا ہوتی ہے کہ یہ سب مخلوق ایک ہی خالق کی پیدا کردہ ہے ایک ہی قوت مدبرہ ہے جو ان تمام مخلوقات کے پیچھے عمل پیرا ہے اور کائنات پر پوری طرح حاوی ہے ۔

جو جانور زمین پر چلتے ہیں (وما من دآبۃ “۔ (6 : 38) اس لفظ میں تمام جاندار حشرات الارض تک شامل ہیں ۔ کیڑے مکوڑے یہاں تک کہ تمام جراثیم ‘ تمام پرندے جو ہوا میں اڑتے ہیں اور تمام مخلوق جو اس کائنات پر زندہ ہے ‘ وہ ایک امت ہے ۔ اس میں ایک جیسے خصائص ہیں ۔ وہ ایک طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور ان کی زندگی کے امور بعینہ اسی طرح ہیں جس طرح یہاں امم انسانی کے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں سے کوئی چیز بغیر اسکیم اور تدبیر کے نہیں چھوڑی اور نہ کوئی چیز اپنے مخصوص علم کے دائرے سے باہر رکھی ہے ۔ آخرت میں یہ تمام مخلوقات اپنے رب کے سامنے حاضر ہوں گی اور ان کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ آخری فیصلے کرے گا ‘ جو وہ چاہے گا ۔

یہ آیت نہایت ہی مختصر ہونے کے باوجود زندہ مخلوقات کے بارے میں ایک فیصلہ کن بات ہمارے سامنے رکھتی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتی ہے کہ اللہ کی جانب سے پوری مخلوقات کی مکمل نگرانی ہو رہی ہے ۔ پوری مخلوق اس کی فعال تدبیر کے تحت زندہ ہے ‘ وہ اس پوری مخلوق کے بارے میں خوب جانتا ہے اور ہر چیز اس کے دائرہ قدرت میں ہے جو رب ذوالجلال ہے ۔

یہاں ظلال القرآن میں ہمارا جو انداز ہے ‘ اس کے پیش نظر ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم یہاں کائنات کے اندر پائے جانے والی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے بحث کرسکیں ۔ (البتہ میری کتاب خصائص التصور الاسلامی میں حقیقت الوہیت ‘ حقیقت انسانی اور حقیقت مادہ کے عنوانات قابل ملاحظہ ہیں) یہاں اس بحث کے دوران اس حقیقت کو اس لئے لایا گیا ہے کہ انسان کے دل و دماغ کو اس طرح متوجہ کیا جائے کہ یہ تمام مخلوقات اور اس مخلوق کا یہ نظام حیات جس کے مطابق زندگی رواں دواں ہے اور پھر اس کے بارے میں اللہ کی جانب سے مکمل تدبیر اور علم اور آخرت میں ان تمام مخلوقات کا اللہ کے سامنے اٹھنا یہ سب ایسے امور ہیں کہ ان میں کسی معجزے سے زیادہ حیرت انگیز دلائل اور اشارات ہیں ۔ اگر کوئی معجزہ صادر ہوجائے تو اسے انسانوں کی ایک وقت میں موجود نسل ہی ملاحظہ کرے گی لیکن ان مخلوقات کے اندر موجود آیات الہی پر اگر غور کیا جائے تو ہر وقت زندہ معجزات نظر آئیں گے اور ہر دور کے لوگ انہیں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

اب اس لہر کا خاتمہ اس حقیقت پر ہوتا ہے کہ ہدایت وضلالت کی پشت پر سنت الہی کے مطابق مشیت الہی کام کر رہی ہے اور یہ کہ اللہ کی مشیت اور سنت انسانی فطرت پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں اور راہنمائی کرتی ہیں ۔

(آیت) ” وَالَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا صُمٌّ وَبُکْمٌ فِیْ الظُّلُمَاتِ مَن یَشَإِ اللّہُ یُضْلِلْہُ وَمَن یَشَأْ یَجْعَلْہُ عَلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (39)

” مگر جو لوگ ہماری نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں وہ بہرے اور گونگے ہیں ‘ تاریکیوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔ اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے رستے پر لگا دیتا ہے ۔ “

یہ اسی حقیقت کا اعادہ ہے کہ کون لوگ ہیں جو سنتے ہیں اور کون ہیں جو مردہ ہیں اور سن ہی نہیں سکتے ۔ لہذا وہ قبول حق سے محروم ہیں لیکن یہاں بات کو ایک دوسرے تناظر میں پیش کیا جاتا ہے ۔ جو لوگ آیات الہی کی تکذیب کرتے اور ان دلائل وبینات پر غور نہیں کرتے جو اس کائنات میں ہر طرف بکھری پڑی ہیں ۔ پھر قرآن کریم میں پائی جانے والی آیات ونشانیوں پر بھی وہ غور نہیں کرتے یہ کیوں ؟ اس لئے کہ انہوں نے اپنی شخصیات میں پائے جانے والے قبولیت حق کے مادے اور صلاحیت ہی کو معطل کردیا ہے ۔ یہ بہرے ہیں سنتے ہیں نہیں گونگے ہیں اور کوئی بات ہی نہیں کرتے ۔ گمراہی کے اندھیروں میں غرق ہیں ۔ کچھ دیکھتے ہی نہیں ۔ صرف مادی اعتبار سے ہی نہیں حقیقی اعتبار سے بھی یہ بہرے ‘ گونگے اور اندھے ہیں اس طرح کہ ان کے قوت مدرکہ معطل ہے ۔ ان کے حواس کام ہی نہی کرتے اور نہ ان کے حواس کوئی اچھی بات ان کے دماغوں تک منتقل کرتے ہیں ۔ اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات بذات خود اثر انگیز ‘ محرک اور جھنجوڑنے والی ہیں ۔ لیکن ان پر ان آیات کا کچھ اثر ہی نہیں ہو رہا ہے ۔ وہ بات کو پاتے ہیں نہیں ۔ لہذا ان آیات بینات سے جو شخص روگردانی کرتا ہے اس کی فطرت میں فساد پیدا ہوگیا ہے ۔ لہذا وہ اس قابل نہیں رہی ہے کہ ہدایت قبول کرے اور ایک ترقی یافتہ زندگی بسر کرنے کا اہل بن جائے ۔

اور یہ سب صورت حالات اللہ کی مشیت کے دائرے کے اندر رونما ہو رہی ہے ۔ اس مشیت کا تقاضا ہی یہ تھا کہ حضرت انسان کے اندر ہدایت قبول کرنے اور گمراہی اختیار کرنے کی دونوں صلاحیتیں موجود ہوں اور وہ دونوں راستوں میں سے کوئی ایک راہ اختیار کرنے میں آزاد ہو اور اس پر کوئی جبر نہ ہو اور نہ کوئی قضائے مبرم ہو۔ اس طرح اللہ جسے چاہتا ہے راہ ہدایت پر ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے ۔ اور یہ ہے اللہ کی مشیت کا مفہوم ۔ اللہ کی مشیت اس شخص کی مددگار ہوتی ہے جو اس کی راہ میں جدوجہد کرتا ہے اور جو شخص عناد کی راہ اختیار کرتا ہے خود گمراہ ہوتا ہے ۔ اللہ کسی بندے پر ظلم نہیں کرتا بلکہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں ۔

راہ ہدایت کی طرف انسان کا رجحان اور میلان یا راہ ضلالت کی طرف انسان کا رجحان اور میلان ‘ دونوں اس مخلوق کے اندر اللہ کی پیدا کردہ صلاحیت سے پیدا ہوتے اور اس کی مشیت کے مطابق ہی کام کرتے ہیں ۔ ابتداء تو یہ رجحان اللہ کا پیدا کردہ ہے اور اس ابتدائی تخلیق کردہ مادے کے نتائج کے طور پر جو ہدایت وگمراہی آتی ہے یہ بھی دائرہ مشیت الہیہ کے اندر ہوتی ہے ۔ اور یہ مشیت بےقید ہے ۔ سوال یہ ہے کہ پھر باز پرس اور سزا وجزاء کیوں ہے ؟ تو وہ اس وجہ سے ہے کہ انسان کا رجحان بہرحال آزادی کی طرف ہوتا ہے ۔ میلان میں وہ آزاد ہے ۔ اگرچہ اس کی یہ صلاحیت اس کے اندر اللہ کی تخلیق کردہ ہے اور اللہ کی مشیت کے ماتحت ہے ۔ (دیکھئے خصائص تصور اسلامی “ کا عنوان ” التوازن “ )

اس لہر کی آیات کی تشریح کے بعد اب ذرا رکیے تاکہ ہم اس مطالعے سے ان لوگوں کے لئے سرمہ بصیرت حاصل کرلیں جو کسی بھی دور میں اور کسی بھی امت میں دعوت اسلامی کا کام کرتے ہیں ۔ ان آیات میں جو ہدایات دی گئی ہیں وہ زمان ومکان کی حدود سے باہر ہیں ۔ ان کا اطلاق تمام حالات اور تمام تحریکوں پر ہوتا ہے اور ان میں دعوت دین کے ایسے نقوش وضع کئے گئے ہیں جو ہر دور کے لئے کار آمد ہیں ۔ یہاں ہم اس نکتے کے پورے پہلوؤں کو زیر بحث نہیں لاسکتے البتہ ہم یہاں نشانات راہ معلوم کرسکتے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ دعوت اسلامی کی راہ نہایت ہی پر خطر ہے ۔ اس میں جگہ جگہ کانٹے بچھے ہوئے ہیں ۔ ہر قدم پر ایک ناپسندیدہ صورت حال کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود سچائی کو فتح اور کامرانی کی گارنٹی دی گئی ہے ۔ ہاں یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ فتح کا وقت پس پردہ تقدیر ہوتا ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتا ہے ۔ اس کی حکمت کے مطابق ظاہر ہوتا ہے ۔ اس کا علم صرف اللہ کو ہوتا ہے اور اس کے سوا کوئی اور اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا ۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کو بھی اس غیب کا علم نہیں دیا گیا ۔ اس راہ میں جو مشکلات سامنے آتی ہیں وہ دو اہم اساسی فیکٹرز کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ پہلا فیکٹر یہ ہے کہ جب دعوت اسلامی کا آغاز ہوتا ہے تو پہلے لوگ اس سے روگردانی اختیار کرتے ہیں ۔ اس کے بعد دوسری مشقت یہ ہوتی ہے کہ داعی کے دل میں اس بات کی شدید خواہش پیدا ہوجاتی ہے کہ لوگ دعوت اسلامی کو قبول کرکے راہ حق پر آجائیں اور اس ذوق وشوق میں وہ بھی ڈوب جائیں جس سے داعی سرشار ہوتا ہے ۔ اس کے لئے ہو پرجوش ہوتا ہے اور اپنی دعوت کے کلمے کی سربلندی چاہتا ہے ۔ یہ خواہش بھی اسی قدر تکلیف دہ ہوتی ہے جس قدر مخاطبین کی طرف سے اعراض اور تکذیب تکلیف دہ ہوتی ہے ۔ یہ دونوں فیکٹرز داعی کے لئے وہ ان روح بن جاتے ہیں۔

یہاں اس لہر میں قرآن کریم جو ہدایات دیتا ہے اور وہ اس مشقت کے دونوں پہلوؤں کے سلسلے میں ہیں ۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ جو لوگ قرآن کی دعوت سے اعراض کرتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کو جھٹلاتے ہیں وہ حق الیقین رکھتے ہیں کہ صرف حضور ﷺ اور آپ کی دعوت عین سچائی ہیں ۔ اور حضور ﷺ سچے ہیں اور وہ یہ پیغام اللہ کی جانب سے لے کر آئے ہیں ۔ لیکن اپنے اس علم کے باوجود وہ اس دعوت کو قبول نہیں کرتے ۔ وہ محض ذاتی خواہشات اور ہوائے نفس کی وجہ سے تکذیب کرتے ہیں حالانکہ یہ دعوت ایسی ہے کہ وہ بذات خود دلیل حق ہے ۔

آفتاب آمد دلیل آفتاب کا مصداق ہے اور انسان کے فطری تقاضوں کے عین مطابق ہے ۔ بشرطیکہ فطرت زندہ ہو اور سچائی کو قبول کرنے کا مادہ اپنے اندر رکھتی ہو ۔ کیونکہ (آیت) ” انما یستجیب الذین یسمعون “ (6 : 36) بیشک دعوت حق تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو سنتے ہیں ۔ رہے وہ لوگ جو تکذیب پر اصرار کرتے ہیں تو ان کے دل و دماغ مردہ ہیں ۔ وہ خود بھی مردہ ہیں ۔ گونگے ‘ بہرے اور اندھے ہیں اور تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ رسول کے اندر یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ مردوں کو سنوائے اور نہ مردے سنتے ہیں ۔ اگرچہ کوئی پکارتا ہے ۔ ایک داعی کی ڈیوٹی یہ نہیں ہے کہ وہ مردوں کو زندہ کرے ۔ کیونکہ یہ تو اللہ کی شان ہے اور یہ اللہ کا کام ہے ۔ یہ تو ہے معاملے کا ایک پہلو اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اللہ کی نصرت بہرحال حق کے ساتھ ہوتی ہے ۔ البتہ یہ بات اپنی جگہ دستور الہی ہے کہ وہ اللہ کی جانب سے مقرر شدہ وقت پر آتی ہے ۔ جس طرح سنت الہیہ قبل از وقت ظاہر نہیں ہوتی اور جس طرح اللہ کے کلمات بدلتے نہیں ۔ اسی طرح یہ بات بھی اٹل ہے کہ آخر کار نصرت آتی ضرور ہے اور یہ بات بھی اپنی جگہ پر ہے کہ وہ قبل از وقت نہیں آتی ۔ اپنے وقت پر ہی ظاہر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اس معاملے میں کوئی جلد بازی نہیں فرماتے ۔ اس لئے کہ اذیت اور تکالیف تو داعیوں پر آتی ہی رہتی ہیں ۔ اگرچہ داعی رسول ہی کیوں نہ ہوں ۔ کیونکہ داعیوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ بغیر عجلت اور شتابی اور بےصبری کے مشکلات کو انگیز کریں اور قبل ازوقت نصرت کا مطالبہ نہ کریں ۔

دین اسلام میں ایک داعی اور رسول کا کردار کیا ہوتا ہے ‘ ان قرآنی ہدایات میں اس کا تعین بھی کردیا گیا ہے ۔ تمام ادوار کے لئے اور تمام معاملات کیلئے ۔ وہ کردار یہ ہے کہ انہوں نے پیغام پہنچانا ہے اور اپنی راہ پر آگے بڑھنا ہے اور اس راہ کی مشکلات کو برداشت کرنا ہے ۔ رہی یہ بات کہ لوگ راہ ہدایت پر آتے ہیں یا نہیں تو یہ جس طرح داعی اور رسول کی طاقت کے حدود سے باہر ہے اسی طرح ان کے فرائض میں بھی شامل نہیں ہے ۔ ہدایت وضلالت سنت الہیہ کے مطابق کام کرتی ہیں اور سنت الہیہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ اگر رسول اپنے کسی محبوب کے بارے میں لاکھ چاہے کہ وہ ہدایت پر آجائے تو اگر سنت الہیہ اس کے حق میں نہیں ہے تو وہ راہ ہدایت نہیں پاسکتا ۔ جبکہ رسول لاکھ چاہے کہ وہ ہدایت پر آجائے تو اگر سنت الہیہ اس کے حق میں نہیں ہے تو وہ راہ ہدایت نہیں پاسکتا ۔ جبکہ رسول کے دشمنوں اور مبغوض لوگوں کو بھی ہدایت نصیب ہو سکتی ہے ۔ اس معاملے میں داعی اور رسول کی شخصیت اور ذات کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔ رسول کے ساتھ یہ حساب نہ ہوگا کہ اس کی دعوت کے نتیجے میں کتنے لوگ راہ راست پر آئے ہیں۔ اس سے صرف یہ پوچھا جائے گا کہ اس نے دعوت کا حق کس قدر ادا کیا ‘ کس قدر مشکلات کو برداشت کیا اور کس قدر اپنی راہ دروش پر جمے رہے ۔ اور کس قدر ثابت قدمی اختیار کی ۔ رہی یہ بات کہ لوگ ہدایت قبول کرتے ہیں یا نہیں ۔ تو یہ معاملہ اللہ کے سپرد ہے ۔

(آیت) ” مَن یَشَإِ اللّہُ یُضْلِلْہُ وَمَن یَشَأْ یَجْعَلْہُ عَلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (39)

جسے اللہ چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے صراط مستقیم پر ڈال دیتا ہے ۔ “

(آیت) ” وَلَوْ شَاء اللّہُ لَجَمَعَہُمْ عَلَی الْہُدَیَ (35) ” اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کردیتا ۔ “

(آیت) ” إِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُونَ (6 : 36) ” دعوت حق پر لبیک وہی لوگ کہتے ہیں جو سنتے ہیں ۔ اس قبل ہم یہ بیان کر آئے ہیں اس سے قبل ہم یہ بیان کر آئے ہیں کہ اللہ کی مشیت ہدایت وضلالت کے بارے میں بےقید ہے اور اس کا رابطہ لوگوں کے رجحان اور جدوجہد کے ساتھ ہے ۔ وہ بیان کافی وشافی ہے ۔

چناچہ داعی حق کا رویہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ جن لوگوں کو دعوت دیتا ہے ‘ ان کی جانب سے پیش کردہ تجاویز پر کان نہ دھرے ۔ خصوصا جبکہ ان تجاویز کا تعلق اساس دین اور منہاج دعوت سے ہو ۔ نہ کسی داعی کے لئے مناسب ہے کہ وہ دین کے اصولوں کو لوگوں کی وقتی خواہشات ورغبات کے مطابق بنا سجا کے پیش کرے ۔ مشرکین کا مطالبہ یہ تھا کہ حضور ﷺ کچھ خارق عادت معجزات پیش کریں جو ان کے زمانے کے تصورات اور مالوفات کے مطابق ہوں اور جنہیں وہ سمجھ سکیں جس کے بارے میں قرآن کریم نے کئی مقامات پر ذکر کیا ہے ۔ اس سورة میں بھی ان کا یہ قول مذکور ہے ۔

(آیت) ” لولا انزل علیہ ملک (25 : 7) وہ کہتے ہیں کہ اس پر فرشتہ کیوں نہیں نازل ہوتا ؟ (آیت) ” وقالوا لولا نزل علیہ ایۃ من ربی “۔ اور وہ کہتے ہیں کہ کیوں نہیں نازل ہوتی اس پر کوئی نشانی اس کے رب کی جانب سے ؟ “

(آیت) ” واقسموا باللہ جھدا ایمانھم لئن جآء تھم ایۃ لیومنن بھا “۔ (6 : 109) اور وہ پختہ قسمیں اٹھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آئی تو وہ اس پر ضرور ایمان لائیں گے ۔ “ ایک دوسری سورة میں ان کا یہ مطالبہ نہایت ہی تعجب خیز انداز میں سامنے آتا ہے ۔ سورة اسراء میں اللہ نے ان کے اس مطالبے اور تجویز کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔

(آیت) ” وقالوا لن مومن لک حتی تفجرلنا من الارض ینبوعا ‘، (90) اوتکون لک جنۃ من نخیل وعنب فتفجر الانھر خللھا تفجیرا (91) اوتسقط السمآء کما زعمت علینا کسفا اوتاتی باللہ والملئکۃ قبیلا (92) اویکون لک بیت من زخرف اوترقی فی السمآء ولن نومن لرقیک حتی تنزل علینا کتبا نقرءہ ) (93) (17 : 90 تا 93)

” اور انہوں نے کہا ہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک کہ تو ہمارے لئے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ جاری نہ کر دے ۔ یا تیری لئے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ پیدا ہو اور تو اس میں نہریں رواں کر دے ۔ یا تو آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہمارے اوپر گرا دے جیسا کہ تیرا دعوی ہے یا خدا اور فرشتوں کو رو در رو ہمارے سامنے لے آئے ۔ یا تیرے لئے سونے کا ایک گھر بن جائے یا تو آسمان پر چڑھ جائے اور تیرے چڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک تو ہمارے اوپر ایک ایسی تحریر نہ اتار لائے جسے ہم پڑھیں ۔ “ اور سورة الفرقان میں اسے یوں بیان کیا گیا ہے ۔

(آیت) ” وقالوا مال ھذا الرسول یا کل الطعام ویمشی فی الاسواق لولا انزل الیہ ملک فیکون معہ نذیرا “۔ (7) او یلقی الیہ کنز او تکون لہ جنۃ یا کل منھا (8) (25 : 7۔ 8) کہتے ہیں یہ کیسا رسول ہے ‘ جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ؟ کیون نہ اس کے پاس کوئی فرشتہ بھیجا گیا جو اس کے ساتھ رہتا اور (نہ ماننے والوں کو) دھمکاتا یا اور نہین تو اس کے لئے کوئی خزانہ ہی اتار دیا جاتا یا اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ روزی حاصل کرتا۔ “ اس لہر میں رسول اللہ ﷺ اور اہل ایمان کو براہ راست اس بات کی ممانعت کی گئی ہے کہ وہ اہل کفر کے مطالبے سے متاثر ہو کر کہیں اس خواہش کا اظہار نہ کریں کہ کوئی معجزہ صادر ہو ہی جائے ۔ چناچہ حضور ﷺ سے ان الفاظ میں خطاب ہوا۔

(آیت) ” وَإِن کَانَ کَبُرَ عَلَیْْکَ إِعْرَاضُہُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِیَ نَفَقاً فِیْ الأَرْضِ أَوْ سُلَّماً فِیْ السَّمَاء فَتَأْتِیَہُم بِآیَۃٍ وَلَوْ شَاء اللّہُ لَجَمَعَہُمْ عَلَی الْہُدَی فَلاَ تَکُونَنَّ مِنَ الْجَاہِلِیْنَ (35) إِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُونَ وَالْمَوْتَی یَبْعَثُہُمُ اللّہُ ثُمَّ إِلَیْْہِ یُرْجَعُونَ (36)

” اگر ان لوگوں کی بےرخی تم سے برداشت نہیں ہوتی تو اگر تم میں کچھ زور ہے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈو یا آسمان میں سیڑھی لگاؤ اور ان کے پاس کوئی نشانی لانے کی کوشش کرو۔ اگر اللہ چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کرسکتا تھا لہذا نادان مت بنو ۔ دعوت حق پر لبیک وہی کہتے ہیں جو سننے والے ہیں ‘ رہے مردے تو انہیں تو بس اللہ قبروں سے اٹھائے گا اور پھر وہ واپس لائے جائیں گے ۔ “ (اس کی عدالت میں پیش ہونے کے لئے) ۔

بعض مسلمانوں کے دلوں میں یہ رغبت پائی جاتی تھی کہ مشرکین صدور معجزات کے بارے میں جو مطالبے کرتے ہیں ان کا مطالبہ پورا کردیا جائے ۔ اس لئے کہ وہ پختہ قسمیں کھاتے تھے کہ اگر کوئی معجزہ صادر ہوگیا تو وہ ضرور ایمان لائیں گے ۔ ایسے لوگوں کو کہا گیا : ۔

(آیت) ” قُلْ إِنَّمَا الآیَاتُ عِندَ اللّہِ وَمَا یُشْعِرُکُمْ أَنَّہَا إِذَا جَاء تْ لاَ یُؤْمِنُونَ (109) وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَہُمْ وَأَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُواْ بِہِ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَنَذَرُہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ (110)

” اے نبی ﷺ ان سے کہو نشانیاں تو اللہ کے اختیار میں ہیں اور تمہیں کیسے سمجھایا جائے کہ اگر نشانیاں آ بھی جائیں تو یہ ایمان لانے والے نہیں ۔ ہم اسی طرح ان کے دلوں اور نگاہوں کو پھیر رہے ہیں جس طرح یہ پہلی مرتبہ اس پر ایمان نہیں لائے تھے ۔ ہم انہیں اس کی سرکشی ہی میں بھٹکنے کے لئے چھوڑے دیتے ہیں) تاکہ اہل ایمان یہ جان لیں کہ اہل کفر کے ہاں اس بات کی کمی نہیں ہے کہ ان کے سامنے کوئی معجزہ نہیں ہے یا ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے جو انہیں سچائی تک لے جائے ‘ بلکہ ان کے ہاں جو کمی ہے وہ یہ ہے کہ وہ سنتے ہی نہیں ۔ وہ اس طرح ہیں جس طرح مردے ۔ ان کی قسمت میں ہدایت نہیں ہے ۔ وہ سنت الہی کے مطابق اپنے آپ کو ہدایت سے محروم کرچکے ہیں ۔ لہذا تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ دین اللہ سنت کے مطابق چلتا ہے ۔ اور اس کا مقام اس سے بلند ہے کہ وہ لوگوں کی خواہشات اور عوام کی تجاویز کے مطابق کوئی روش اختیار کرے ۔ اب ہم قرآنی آیات کے ایک وسیع دائرے میں آجاتے ہیں ۔ اب ایسی ہدایات سامنے آتی ہیں جو زمان ومکان کی قید سے وراء ہیں ‘ جن کا تعلق کسی ایک واقعہ سے نہیں ہے ۔ نہ کسی مخصوص تجویز سے ان کا تعلق ہے ۔ زمانہ تو بدلتا رہتا ہے ۔ لوگوں کی خواہشات اور ان کے مطالبات بھی بدلتے رہتے ہیں اس لئے داعیان حق کو چاہئے کہ انہیں لوگوں کی خواہشات صراط مستقیم سے ادھر ادھر نہ کردیں ۔ یہ لوگوں کی خواہشات اور ان کے مطالبات ہی ہیں جن کا لحاظ کرتے ہوئے بعض داعیان حق اسلامی نظریہ حیات کو ایک مذہب کے طور پر تسلیم کر کے اسے دوسرے مذہب کی طرح ایک کاغذی مذہب قرار دیتے ہیں اور اسے انفرادی زندگی کے معاملات تک محدود کردیتے ہیں ۔ جس طرح اس کرہ ارض پر متعدد دوسرے مذاہب موجود ہیں جو کسی وقت ایک محدود مقصد کے لئے وجود میں آجاتے ہیں ۔ پھر اسی جذبے کے تحت بعض داعی اسلامی نظام کو ایک کاغذی منصوبے یا ایک مفصل کاغذی قانونی نظام کی صورت میں پیش کرتے ہیں اور اس منصوبے کے ذریعے وہ دور جدید کی جاہلیت کے واقعی حالات کا مقابلہ کرتے ہیں حالانکہ اہل جاہلیت کی جو عملی صورت حال ہے اس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس لئے کہ دور جدید کے اہل جاہلیت تو ببانگ دہل یہ کہتے ہیں کہ اسلام ایک پرائیویٹ عقیدہ ہے اور اس کا زندگی کے واقعی اور عملی نظام کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔ یہ داعی لوگوں کے لئے اس عملی جاہلی صورت حال کو اسلامی رنگ میں مرتب کرتے ہیں ۔ اس کے مطابق لوگ بدستور جاہلیت پر قائم رہتے ہیں ‘ اپنے فیصلے طاغوت کی عدالت سے کراتے ہیں ۔ نہ وہ شریعت کے مطابق فیصلے کرتے ہیں اور نہ کراتے ہیں ۔ اس قسم کی تمام کوششیں نہایت ہی گھٹیا اور ذلیل حرکات ہیں ۔ ایک سچے مسلمان کو چاہئے کہ وہ ان جدید فکری رنگوں میں رنگے ہوئے ان خیالات کو پرے پھینک دیں ‘ اس لئے کہ یہ خیالات ناپختہ ہیں اور کسی حال میں بھی اپنی جگہ پر قائم نہیں رہ سکتے ۔ اگرچہ انکو دعوت اسلامی کے جدید رنگ اور جدید تکنیک کا نام دیا جائے ۔

اور اس سے بھی زیادہ ذلیل اور گھٹیا حرکت ان لوگوں کی ہے جو اسلام کو جدید لباس پہناتے ہیں اور اسلام پر ایسی صفات اور اصطلاحات کا اطلاق کرتے ہیں جو تاریخی ادوار میں کسی دور میں خود انسانوں نے ایجاد کیں ۔ مثلا اشتراکیت اور جمہوریت وغیرہ ایسے لوگوں کی اس سعی نامشکور کا مقصد یہ رہا ہے کہ وہ اسلام کی ترقی یافتہ تعبیر کرکے اس طرح اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ۔ ذرا غور کیجئے اشتراکیت ایک اجتماعی اور اشتراکی نظام ہے اور یہ خالص انسانوں کا بنایا ہوا ہے ۔ اس کے اندر کچھ چیزیں درست بھی ہو سکتی ہیں اور کچھ غلط بھی ہو سکتی ہیں ۔ اسی طرح جمہوریت بھی ایک نظام حکومت اور نظام زندگی ہے ۔ یہ جمہوری نظام خود انسانوں کی سوچ اور فکر کے نتیجے میں بنایا گیا ہے ۔ اس میں بعض چیزیں درست بھی ہو سکتی ہیں اور غلط بھی ہو سکتی ہیں ۔ ان کے مقابلے میں اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور یہ نظریاتی افکار ایک اجتماعی سوشل نظام ایک علیحدہ اقتصادی نظام اور ایک ممتاز عملی اور انتظامی ڈھانچے پر مشتمل ہے اور یہ نظام اللہ بنایا ہوا نظام ہے ۔ اس کے اندر نہ کوئی نقص پایا جاتا ہے نہ کوئی عیب ہے ۔ لہذا جو شخص تو وہ شخص اسلام کے حوالے سے درست موقف کا حامل نہیں ہے ۔ یا اس پر ایسے اقوال منطبق کرتا ہے جو انسانوں کے اعمال ہیں ۔

اہل جاہلیت مشرک صرف اس لئے قرار پاتے تھے کہ وہ اللہ کی مخلوقات میں سے بعض لوگوں کو اللہ کے ہاں سفارشی بناتے تھے اور ان کو دوست بناتے تھے ۔

(آیت) ” والذین اتخذوا من دونہ اولیاء ما نعبدھم الا لیقربونا الی زلفی (39 : 3) ” وہ لوگ جنہوں نے اس کے سوا دوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں ۔ (اور اپنے اس فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ) ہم تو ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کردیں “ یہی تو شرک ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے دربار میں کچھ لوگوں کی سفارش کے مرحلے سے بھی آگے بڑھ کر کچھ دوسرے لوگوں کے بنائے ہوئے نظام حیات کے ذریعے تقرب حاصل کرتے ہیں ان کا یہ فعل ‘ مشرکین عرب کے فعل سے کس قدر زیادہ مکروہ ہے ۔ مشرکین عرب دین بہرحال خدا ہی کا مانتے تھے البتہ کچھ اشخاص کو شریک بناتے تھے ۔ یہ لوگ تو نظام حیات غیر اللہ کا اپناتے ہیں اور قرب اللہ کا چاہتے ہیں ۔

خوب غور کیجئے اور سمجھیے کہ اسلام اسلام ہے ‘ سوشلزم سوشلزم ہے اور جمہوریت جمہوریت ہے ۔ اسلام کا صرف وہی نام اور وہی عنوان ہوگا جو اس کے لئے اللہ نے رکھا ہے اور تجویز کیا ہے ۔ یہ دوسرے نام اور عنوان لوگوں کے رکھے ہوئے ہیں ۔ یہ تمام دوسرے نظام لوگوں نے اپنے تجربوں سے بنائے ہوئے ہیں ‘ اگر کوئی شخص ان نظاموں کو اپناتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ انہیں اپنے نام اور عنوان سے اپنائے ۔ کسی داعی دین کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ لوگوں کے اپنائے ہوئے کسی رنگ کو اپنائے اور دعوی یہ کرے کہ وہ اللہ کے دین پر کوئی احسان کر رہا ہے ۔

بہرحال ہم ایسے لوگوں سے ایک بات پوچھتے ہیں ‘ آخر تمہاری نظروں میں اللہ کا دین اس قدر بےوقعت کیوں ہوگیا ہے ‘ اور تم کیوں اللہ کی عظمت کو اپنے دل میں اس طرح نہیں بٹھاتے جس طرح اس کا حق ہے ۔ تم لوگ آج کے دور میں اسلام کو کیوں اشتراکیت اور جمہوریت کے رنگ میں پیش کرتے ہو ‘ کیونکہ یہ تو دور حاضر کے فتنے اور دور حاضر کے لئے محبوب تھا کہ لوگ جاگیرداری سے گلو خلاصی چاہتے تھے جبکہ جاگیرداری سے بھی پہلے ڈکٹیڑ شپ ایک محبوب نظام تھا اور اس کے ذریعے لوگ چھوٹی چھوٹی ریاستوں اور بکھری ہوئی ظالم ریاستوں سے نجات چاہتے تھے مثلا جرمنی اور اٹلی کے ممالک اس دور سے بھی گزرے ہیں ۔ کل مذکورہ بالا نظاموں کے مقابلے میں دنیا میں کوئی نیا نظام بھی رائج ہو سکتا ہے جو اہل دنیا کو کوئی تجربہ یا نیارنگ ہوگا اور جس میں ایک نئی شکل میں انسان ‘ انسان کا غلام ہوگا تو تم پھر کل اسلام پر اس نئے نظام اور رنگ کا لیبل چسپاں کرو گے تاکہ تم اسلام کو ایک ایسے رنگ میں پیش کرسکو جسے لوگ چاہتے ہیں ؟

آیات کے زیر بحث حصے یا لہر میں اور قرآن کریم کے دوسرے مقامات پر یہ ہدایات دی گئی ہیں کہ داعی دین کا رویہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنی دعوت ونظریہ کو لے کر اور مستغنی ہو کر آگے بڑھے اور جو لوگ دعوت اسلامی کے سلسلے میں ترمیمی تجاویز دیتے ہیں ان کی باتوں اور تجویزوں پر سرے سے کان ہی نہ دھرے ۔ نیز دین اسلام کو اس کے اصل نام اور عنوان کے ساتھ ہی پیش کرے اور اسے دوسرے مروجہ ناموں اور عنوانوں کے ساتھ کرنے کی سعی نہ کرے ۔ وہ لوگوں کو اسلامی منہاج اور اسلامی ذرائع ہی کے ذریعے بیدار کرنے کی سعی کرے ۔ اللہ تمام جہانوں سے بےنیاز ہے ۔ اگر کوئی اس دعوت کو اس طرح قبول نہیں کرتا جس میں وہ صرف اللہ کی بندگی کرے اور اس کے سوا تمام غلامیوں سے نکل آئے تو دین اسلام کو کسی ایسے شخص کی ضرورت نہیں ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کو کسی سرکش اور کسی مطیع فرمان کی طرف کوئی احتیاج ہے ۔

دین اسلام اپنے بنیادی عناصر اور اپنی خصوصیات کے اعتبار سے اپنی ایک خاص اصلیت (OrignAlity) رکھتا ہے ۔ اللہ کا منشا یہ ہے کہ یہ خصائص اور یہ اساسی اقدار غالب ہوجائیں ۔ دنیا کے عملی نظام کے معاملے میں یہ دین اصلیت (OrignAlity) کا مالک ہے ۔ اور وہ جس انداز میں انسان کو دعوت فکر دیتا ہے وہ بھی اور جنل ہے ۔ جس خدا نے اس دین کو اپنی خصوصیات اور اپنے عناصر ترکیبی کے ساتھ اتارا ہے ۔ ‘ وہی کدا تو ہے جو اس حضرت انسان کا خالق ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ انسان کیا کیا سوچتا رہتا ہے اور اس کے دل میں خواہشات کی کیا کیا لہریں اٹھتی ہیں ؟

اس لہر میں قرآن کریم کے اس انداز خطاب کا بھی ایک نمونہ موجود ہے جس کے ساتھ وہ فطرت انسانی کو مخاطب کرتا ہے ۔ اس کے اسلوب خطاب میں سے یہ بھی ایک اساسی نمونہ ہے ۔ قرآن انسانی فطرت اور اس کائنات کے طبعی عمل کے درمیان ایک رابطہ اور تعلق پیدا کرتا ہے ۔ وہ کائناتی اثرات واشارات کا رخ فطرت انسانی کی طرف موڑتا ہے ۔ اس اثناء میں قرآن انسان کی فطری ساخت کو اس پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ ان فطری اشارات کو قبول کرے ۔ قرآن جانتا ہے کہ جب اس کائنات کے تکوینی اشارات انسانی فطرت کی گہرائیوں تک پہنچ جائیں تو انسان فورا لبیک کہتا ہے ۔

(آیت) ” إِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُونَ (6 : 36) ” دعوت حق پر لبیک وہی لوگ کہتے ہیں جو سنتے ہیں ۔ وہ نمونہ طرز ادا کیا ہے جو اس لہر میں ہم سے مخاطب ہے ۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں ۔

(آیت) ” وَقَالُواْ لَوْلاَ نُزِّلَ عَلَیْْہِ آیَۃٌ مِّن رَّبِّہِ قُلْ إِنَّ اللّہَ قَادِرٌ عَلَی أَن یُنَزِّلٍ آیَۃً وَلَـکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لاَ یَعْلَمُونَ (37)

” یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نبی پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتاری گئی ؟ کہو ‘ اللہ تعالیٰ نشانی اتارنے کی پوری قدرت رکھتا ہے ‘ مگر ان میں سے اکثر لوگ نادانی میں مبتلا ہیں ۔

اس آیت میں ان لوگوں کی بات نقل کی گئی ہے جو دین اسلام کو جھٹلاتے تھے ‘ حضور ﷺ کا مقابلہ کرتے تھے ‘ اور ایسے خارق عادت معجزات کے طلبگار تھے جنہیں ان کی آبادی بچشم سر دیکھے یہاں ان کا مطالبہ نقل کرنے کے بعد ان کے دلوں میں یہ بات بٹھائی جاتی ہے کہ اگر ان کا یہ مطالبہ مان لیا جائے تو اس کے نتائج کیا نکلیں گے ۔ یہ کہ وہ خدا کی شدید پکڑ میں آجائیں گے اور ہلاک وبرباد کردیئے جائیں گے ۔ ظاہر ہے کہ اللہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ وہ کوئی معجزہ نازل فرمائے ۔ لیکن اللہ کی رحمت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ نازل نہ کرے اور اللہ کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کے اس مطالبے کو مسترد کردیے ۔

سیاق کلام اب اس محدود موضوع سے نکل کر کائنات کی وسعتوں میں داخل ہوجاتا ہے اور لوگوں کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ تم اپنے اردگرد پھیلی ہوئی اس کائنات پر ذرا نگاہ ڈالو ‘ وہ آیات ومعجزات خود کتاب کائنات کے اندر موجود ہیں جن کے مقابلے میں وہ خوارق کچھ خوارق نہیں جن کا وہ مطالبہ کرتے ہیں ۔ اور یہ معجزات اور نشانات اس کائنات کے دل میں ابدالاباد تک قائم ہیں تاکہ صرف ایک موجودہ نسل ہی نہیں سب نسلیں انہیں دیکھتی رہیں ۔

(آیت) ” وَمَا مِن دَآبَّۃٍ فِیْ الأَرْضِ وَلاَ طَائِرٍ یَطِیْرُ بِجَنَاحَیْْہِ إِلاَّ أُمَمٌ أَمْثَالُکُم مَّا فَرَّطْنَا فِیْ الکِتَابِ مِن شَیْْء ٍ ثُمَّ إِلَی رَبِّہِمْ یُحْشَرُونَ (38)

” زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو ‘ یہ سب تمہاری ہی طرح کی انواع ہیں ‘ ہم نے ان کی تقدیر کے نوشتے میں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ‘ پھر یہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جا رہے ہیں ۔ یہ بیشک ایک ہولناک حقیقت ہے ۔ یہ وہ عظیم حقیقت ہے جسے اس وقت ان کی وقت مشاہدہ دیکھ سکتی تھی ‘ اس لئے کہ اس وقت تک وہ سائنس میں کوئی منظم علم نہ رکھتے تھے ۔ وہ یہ کہ تمہارے اردگرد موجود تمام مخلوقات کے اصناف واجناس اپنی جگہ اقوام وامم ہیں ۔ ہر ایک کی اپنی خصوصیت ہے اور اپنا نظام ہے ‘ لیکن یہ مشاہدہ اس قدر عظیم حقیقت ہے کہ جس قدر اس کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے اسی قدر اس کی عظمت کا یقین ہوتا جاتا ہے ‘ اس سے انسانی علم میں اضافہ ہوتا ہے ہاں انسانی علم میں اضافہ ہوتا ہے ہاں انسانی علوم اس کائنات کے علوم میں اضافہ تو کرسکتے ہیں لیکن ان کی وجہ سے اس کائنات کی کسی بھی حقیقت میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا ۔ انسانی علوم کے متوازی اللہ کے علوم غیبی ہیں جو اپنا کام کرتے ہیں اور ہر معاملے پر الہی علم و ارادہ اپنا تدبیری عمل جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کائنات میں ہمارا مشاہدہ جس قدر آگے جاتا ہے ‘ یہ حقیقت اور واضح ہوتی جاتی ہے ۔

سوال یہ ہے کہ اس کائنات کے اندر جو الہی قوتیں کار فرما ہیں اور جو نہایت ہی معجزانہ انداز میں کام کررہی ہیں ان کے مقابلے میں ان لوگوں کے مطلوبہ معجزات کی حیثیت ہی کیا ہے ؟ یہ کائناتی آیات ومعجزات تو وہ حقائق ہیں کہ انسان کی بصارت اور بصیرت جس قدر آگے بڑھتی ہے وہ ان کے نئے نئے پہلو دیکھتے ہیں اور قیامت تک دیکھتے رہیں گے ۔

اس انتخاب اور نمونے میں قرآنی منہاج کلام یہ ہے کہ قرآن کریم فطرت انسانی اور اس کائنات کے درمیان ایک ربط اور جوڑ پیدا کردیتا ہے ۔ وہ فطرت کے دریچے کائنات کے رازوں کے لئے وا کردیتا ہے اور اس طرح قرآن کریم اس عظیم کائنات کے رازوں کے ذریعے انسان کی شخصیت اور اس کی سوچ پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے ۔

قرآن کریم انسان کی فطرت کے سامنے محض جدلیاتی لاہوتی مباحث پیش نہیں کرتا ۔ نہ ان کے سامنے محض جدلیاتی علم الکلام اور توحیدی مباحث پیش کرتا ہے ۔ نہ عقلی اور حسی فلسفے پیش کرتا ہے ۔ یہ امور اسلامی اور قرآنی منہاج کے خلاف ہیں ۔ قرآن لوگوں کے سامنے عالم موجودات اور عالم غیب کے واقعی مشاہد وحقائق پیش کرتا ہے ۔ عقل انسانی کو آزاد چھوڑ دیتا ہے کہ وہ غور وفکر کرے ‘ ان سے نتائج اخذ کرے اور قدرت کی کارفرمائیوں کے ساتھ ہمقدم ہو کر چلے اور حقائق کو قبول کرے ۔ لیکن قرآن کریم انسان پر یہ ایک خاص ضابطے اور اسلوب کے ساتھ پیش کرتا ہے اور اسے اسی طرح نہیں چھوڑ دیتا کہ وہ عالم شہادت کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر صراط مستقیم کھو دے ۔ اب سب سے آخر میں ان لوگوں کا انجام بتلایا جاتا ہے جو اس عظیم معجزے کے منکر ہیں :

(آیت) ” وَالَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا صُمٌّ وَبُکْمٌ فِیْ الظُّلُمَاتِ مَن یَشَإِ اللّہُ یُضْلِلْہُ وَمَن یَشَأْ یَجْعَلْہُ عَلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (39)

” مگر جو لوگ ہماری نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں وہ بہرے اور گونگے ہیں ‘ تاریکیوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔ اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے رستے پر لگا دیتا ہے ۔ “

قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ جو لوگ آیات الہی کو جھٹلاتے ہیں وہ گونگے اور بہرے ہیں اور اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ اور پھر بتایا جاتا ہے کہ اللہ کے نزدیک ہدایت وضلالت کے بارے میں کیا اصول رائج ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ ہدایت وضلالت اللہ کی مشیت کے دائرے میں آتی ہے اور یہ اس قانون فطرت کے مطابق ہے جس پر اللہ نے بندوں کو پیدا کیا ہے ۔

یوں اس معاملے میں اسلامی تصور حیات کے تمام پہلو جڑ جاتے ہیں اور اسلامی منہاج دعوت کی وضاحت بھی ہوجاتی ہے ۔ ایک داعی کے موقف کو متعین کردیا جاتا ہے ‘ جو اپنے نظریات و عقائد کے مطابق جدوجہد کرتا رہتا ہے ۔ ہر دور اور ہر حال میں وہ لوگوں کے سامنے دعوت پیش کرتا رہتا ہے ۔ امید ہے کہ اس قدر کلمات کے ساتھ ہم اپنا مدعا واضح کرچکے ہیں اور اس کے ساتھ وہ مزید بحث بھی قابل ملاحظہ ہے جو ہم نے دعوت اسلامی کے منہاج کے سلسلے میں اس سورة کے مقدمے میں کی ہے ۔

درس نمبر 60 ایک نظر میں :

یہاں سے سیاق کلام کا رخ اب اس موضوع کی طرف پھرجاتا ہے کہ جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو اس کا مشرکین کی فطرت پر کیا ردعمل ہوتا ہے بلکہ مشرکین کے سامنے ان کے فطری ردعمل کا نمونہ پیش کردیا جاتا ہے کہ جس سے وہ عذاب الہی کے وقت دو چار ہوتے ہیں ۔ جب انسان اور ان مشرکین کی فطرت کے اوپر سے تہ بہ تہ جمے ہوئے مادی پردے ہٹ جاتے ہیں اور جب وہ خوفناک حالات سے جھنجوڑے جاتے ہیں تو فطرت کے اوپر جمی ہوئی گرد و غبار چھٹ جاتی ہے ۔ ایسے حالات میں مشرکین اپنے جھوٹے خداؤں کی تمام کہانیاں بھول جاتے ہیں ۔ وہ رب واحد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں جس کی معرفت ان کی فطرت کی گہرائیوں میں پہلے سے موجود ہوتی ہے ۔ اب وہ صرف اللہ کے سامنے نجات اور فلاح کے لئے دست بدعا ہوتے ہیں ۔

اس کے بعد سیاق کلام ان کے ہاتھ پکڑ کر ایک دوسرے منظر کے سامنے لے جاتا ہے اور اس میں منظر میں انہیں بتایا جاتا ہے کہ ان کے اسلاف پر کیا کیا عذاب نازل ہوئے اور کس کس میدان میں وہ مارے گئے ۔ سنت الہیہ نے تاریخ میں کیا کیا کردار ادا کیا اور قضائے الہی کس طرح ان کے ساتھ عمل کرتی رہی ۔ ان کی بصارت اور بصیرت کو روشن کرنے کے لئے انہیں وہ واقعات بتائے گئے کہ اللہ نے انہیں کہاں کہاں مہلت دی جس کے اندر وہ رسولوں کو جھٹلاتے رہے ۔ اور نتیجۃ کس طرح ایک ابتلاء کے بعد ان پر دوسری ابتلاء آتی رہی ۔ انہیں مصائب ومشکلات سے دو چار کیا گیا ۔ پھر نعمت و دولت کے ذریعے انہیں آزمائش میں ڈالا گیا اور انہیں مہلت کے بعد مہلت دی جاتی جاتی رہی تاکہ وہ غفلت کی نیند سے بیدار ہوجائیں یہاں تک کہ انہوں نے فرصت کے تمام مواقع ضائع کردیئے ۔ مشکلات اور مصائب نے ان کے اندر جو احساس پیدا کردیا تھا ‘ دولت ونعمت نے انہیں اس احساس سے محروم کردیا ۔ اللہ کی سنت کے مطابق ان پر پھر عذاب الہی آیا اور اس نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا وہ یہ تھا :

(آیت) ” فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ وَالْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (45)

اس طرح ان لوگوں کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی جنہوں نے ظلم کیا تھا ، اور تعریف اللہ رب العالمین کے لئے ہے ۔

یہ منظر جو دلوں کو دہلانے والا ہے ‘ ابھی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا کہ سامنے سے دوسرا منظر نمودار ہوجاتا ہے ۔ اس نئے منظر میں یہ لوگ اللہ کے عذاب میں مبتلا نظرآتے ہیں ۔ اللہ کے عذاب نے ان کی قوت سماعت اور ان کی قوت بصارت کو ختم کردیا ہے ۔ ان کے دلوں پر مہریں لگ چکی ہیں اور اب اللہ کے سوا ‘ اس منظر میں ‘ کوئی دوسری قوت انہیں نظر نہیں آتی جو ان کی کھوئی ہوئی بصارت ‘ سماعت اور قوت مدرکہ انہیں دو بار دے سکے ۔ ان نمایاں اور خوفناک مناظر موجودگی میں بتایا جاتا ہے کہ کسی رسول کے فرائض کیا ہیں ؟ یہ کہ وہ بشیر ونذیر ہوتا ہے اور اس کے سوا نہ کوئی اس کی ڈیوٹی ہے اور نہ اختیار ۔ رسول کے پاس یہ طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اپنی جانب سے کوئی معجزہ پیش کرے ۔ نہ رسولوں کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ لوگوں سے تجاویز لیں اور ان کے مطابق کام کریں ۔ وہ تو مبلغ ہوتے ہیں اور بشیر ونذیر ہوتے ہیں ۔ اب صورت حالات یہ ہوجاتی ہے کہ بعض لوگ ان پر ایمان لا کر عمل صالح شروع کردیتے ہیں ۔ وہ خوف سے اور پریشانی سے نجات پا جاتے ہیں ۔ اور بعض لوگ ان کی تکذیب کرتے ہیں اس لئے انہیں عذاب سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور یہ عذاب ان پر اس روگردانی اور تکذیب کی وجہ سے آتا ہے ۔ اس لئے جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کا رویہ اختیار کرے ‘ اس کا انجام یہ ہوگا ‘ جس کا اس لہر میں ذکر ہوا ہے ۔