حُوْرٌ
مَّقْصُوْرٰتٌ
فِی
الْخِیَامِ
۟ۚ

آیت 72{ حُوْرٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْْخِیَامِ۔ } ”یعنی حوریں ‘ جو قیام پذیر ہوں گی خیموں میں۔“ یہاں پر ”خیموں“ کا ذکر خصوصی طور پر عرب کے ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ نزولِ قرآن کے وقت عرب میں شہروں کی تعداد بہت تھوڑی تھی اور زیادہ تر لوگ خیموں میں رہتے تھے۔ اس لیے یہاں پر گھر یا محل کے بجائے خیمے کا ذکر آیا ہے۔ یہاں { مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْخِیَامِ } کے الفاظ میں { وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ } الاحزاب : 33 کے حکم کی عملی جھلک دکھائی دیتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ دراصل عورت کا وہ روپ ہے جس روپ میں اسلام اسے دیکھنا چاہتا ہے۔ اسلام عورت کو ”چراغ خانہ“ بن کر رہنے کی ترغیب دیتا ہے اور اسے ”شمع محفل“ بننے سے منع کرتا ہے۔ یہاں پر ایک بہت اہم نکتہ یہ بھی لائق توجہ ہے کہ ان آیات میں جن دو جنتوں کا ذکر ہو رہا ہے ان میں ”حوریں“ ہوں گی جبکہ قبل ازیں جن جنتوں کا ذکر ہوا تھا ان میں حوروں کا نہیں بلکہ ”جنتی عورتوں“ کا تذکرہ تھا : { فِیْہِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِلا } ”ان میں ایسی عورتیں ہوں گی جن کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی“۔ اسی طرح سورة الواقعہ میں اصحاب الیمین کی جنت میں خوبصورت عورتوں { اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ اِنْشَآئً۔ } کا ذکر ہے جبکہ ”مقربین“ کے لیے جنت کے حوالے سے ”حُوْرٌ عِیْن“ آیت 27 کا تذکرہ ہے۔