وَقَیَّضْنَا
لَهُمْ
قُرَنَآءَ
فَزَیَّنُوْا
لَهُمْ
مَّا
بَیْنَ
اَیْدِیْهِمْ
وَمَا
خَلْفَهُمْ
وَحَقَّ
عَلَیْهِمُ
الْقَوْلُ
فِیْۤ
اُمَمٍ
قَدْ
خَلَتْ
مِنْ
قَبْلِهِمْ
مِّنَ
الْجِنِّ
وَالْاِنْسِ ۚ
اِنَّهُمْ
كَانُوْا
خٰسِرِیْنَ
۟۠

اب اگلی آیت میں بتایا جاتا ہے کہ اللہ کا اقتدار تو تمہارے دلوں پر بھی قائم ہے۔ جب تم زمین میں تھے اس وقت بھی تمہارے دل اللہ کے قبضہ قدرت میں تھے۔ جب تم اللہ کی نافرمانی کرتے تھے۔ جب اللہ کو تمہارے دلوں کا میلان فساد معلوم ہوا تو اللہ نے تمہارے دلوں پر ایسے ساتھی مسلط کر دئیے جو جنوں میں سے بھی تھے اور انسانوں میں سے بھی ۔ یہ برائی کو تمہارے دل و دماغ کے لئے مزین کرتے تھے۔ یہ ساتھی ان کو اس قافلے میں ملا دیتے تھے جس کا انجام گھاٹے کا لکھا گیا تھا۔ یوں ان پر کلمہ عذاب اور فیصلہ عذاب صادق ہوا :

ذرا دیکھیں تو سہی کہ وہ کس حد تک اللہ کے قبضے میں ہیں ، جس کی بندگی کرنے سے وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں۔ اور ان کے دل جو ان کے پہلوؤں میں ہیں ، وہ ان کو عذاب اور برے انجام کی طرف لے جارہے ہیں۔ جس کو اللہ گمراہ کرنا چاہے اس پر وہ ایسے ساتھ مسلط کردیتا ہے جو اس کے دل میں وسوسہ اندازی کا کام کرتے ہیں اور اس کے ماحول میں جو بری چیز ہوتی ہے اس کو اس کے لئے مزین کرتے ہیں اور اس کے جو اعمال ہوتے ہیں اس کی نظروں میں اچھے بناتے ہیں ، ان کو ان میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی اور انسان کے لئے سب سے بڑی بیماری یہ ہوتی ہے کہ اس کے برے افعال اور اس کی گمراہی کے بارے میں اس کا احساس ختم ہوجائے۔ اپنی ذات کے ہر پہلو کے بارے میں وہ یہ دیکھنے لگے کہ وہ اچھا ہے ۔ اس مقام پر جب انسان پہنچ جائے تو پھر وہ ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ اس وجہ سے یہ لوگ اس گلے میں شامل ہوگئے جس نے ہلاکت کی طرف جانا تھا۔ یعنی ان گروہوں میں جن پر اللہ کا فیصلہ طے ہوچکا تھا ، جنوں سے بھی اور انسانوں میں سے بھی کہ :

انھم کانوا خسرین (41 : 25) ” کہ یقیناً وہ خسارہ میں رہ جائیں گے “۔

ان لوگوں کے جو ساتھی تھے ان کو گمراہ کرنے کے لئے ، انہوں نے ان کو آمادہ کیا کہ قرآن کا مقابلہ اس طرح کرو کہ اسے نہ سنو ، نہ سننے دو کیونکہ انہوں نے معلوم کرلیا تھا کہ اس کے اندر غضب کی تاثیر ہے۔